علم نجوم اور دیگر دنیاوی علوم میں فرق
سوال:علم نجوم ( آسٹرولوجی ) ستاروں سیاروں کا علم بلکل اسی طرح ایک دنیاوی علم ہے جیسے کیمسٹری، ریاضی، فزکس وغیرہ۔ اگر ان سبجیکٹس کے ڈاکٹرز، اعلی تعلیم یافتہ افراد و سائنسدان اپنے ان علوم کو پڑھ سمجھ کر اور مشاہدات کی بنا پر انسان یا دیگر مخلوقات کے فائدے اور استعمال کے لیے نئی چیزيں ايجاد کر سکتے ہیں تو پھر بلکل ایسے ہی علم نجوم کے ماہرين اور ڈاکٹرز اپنے علم اور مشاہدات کی بنا پر آگے زندگی میں آنے والے حالات و واقعات کے بارے میں آگاہی اور رہنمائی دیں تو پھر یہ غلط اور شرک کیسے ہو گیا؟ اگر علم نجوم کا تجربہ شرک یا غلط ہے تو پھر فزكس کیمسٹری اور دیگر سائنسی علوم اور ايجادات کو بھی گمراہی کا درجہ دے کر صرف خدا کی بنائی ہوئی قدرتی چیزوں کا استعمال کیا جائے۔ اور اگر یہ ایجادات ٹھیک ہیں تو پھر ماہرين علم نجوم کیوں اور کیسے غلط ہیں؟برائے مہربانی ہماری تفصیلی رہنمائی فرمادیں۔
منجانب: طلبا و طالبات ڈرگز اینڈ میڈیسن گروپ
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہے کہ کیمسٹری ،ریاضی وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو شرعا ممنوع ہو اس لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے انھیں سیکھنا سکھانا جائز ہے،جبکہ علم نجوم میں تفصیل ہے جو درج ذیل ہیں۔
علم نجوم اوراجرام فلکیہ میں تین طرح کے کام ہوتے ہیں ایک :حساب ،دوسرا: تحقیق ومطالعہ اور تیسرامستقبل کےحالات کاعلم ۔
علم نجوم سے شرعی احکام کے حساب میں مدد لینا مطلوب اور مستحسن ہے ،جیسےنمازوں کے اوقات معلوم کرنا، قبلہ کا رخ معلوم کرنا،اسلامی مہینوں کا حساب رکھنا،رمضان اور عیدین وغیرہ کا چاند دیکھنےکے لیے فلکی حسابات کی مدد لینا وغیرہ۔
اسی طرح علم نجوم سے انسانی ضروریات پوری کرنے یااس کےلیے سہولت پیداکرنےکی خاطرمختلف تجربے کرنایاصرف ان کامطالعہ کرنا بھی جائز ہے ،جیسے ستاروں کی مدد سے رات کو راستے معلوم کرنا ، وقت معلوم کرنا،موسم کے حالات معلوم کرنا ،اجرام فلکیہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا، چاند یا دیگر سیاروں ستاروں کی تحقیق اور ان تک رسائی کی کوششیں کرناوغیرہ۔
تاہم تیسری چیز یعنی ستاروں کی چال سے مستقبل کے حالات کی حتمی پیشین گوئی کرنا،اسلام نے صرف اس سے منع کیا ہے،کیونکہ اس کا تعلق غیب کی باتوں کے ساتھ ہے اور علم غیب اللہ کے لیے خاص ہے،اس طرح کی پیشین گوئیاں لوگوں کےعقیدےخراب کرنے کی باعث ہیں اس لیےشریعت نے عقیدے کی حفاظت کی خاطرنیزلایعنی میں مشغول ہونےسےبچانےکےلیےاس سےمطلقامنع کردیاہے۔
مزیدتفصیل یہ ہے کہ ستاروں کی گردش نبض کی حرکات کی طرح محض علامات ہوتی ہیں،مؤثراورسبب حقیقی نہیں۔موثربالذات اورحقیقی سبب اللہ تعالی ہیں،جس کےفیصلوں کااثرستاروں میں ظاہرہوتاہے۔جس طرح نبض کا اپنی معتدل چال سے ہٹنا طبیعت کے خراب ہونے میں مؤثر نہیں بلکہ محض ایک علامت ہے، اصل سبب اندرونی یابیرونی کوئی اورچیزہوتی ہے۔
لہذااگر کوئی شخص حرکات نجوم کو محض علامات سمجھے اور یہ ذہن میں رکھے کہ یہ علامات غلط بھی ثابت ہوتی ہیں ،اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ ان کے چلنے اور جگہ تبدیل کرنے میں اللہ تعالی کی تدبیر ہی ہے اور ان کےاثرات کو من جانب اللہ سمجھےاور اپنے لیے علم غیب کا دعوی نہ کرے ،اپنے اخذکردہ نتیجے پر نہ خود اعتماد کرے اور ناکسی کو یقین دلائے،بلکہ دوسروں کو برابر بتاتا رہے کہ یہ میں نے اپنے علم کے مطابق نتیجہ نکالا ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ نتیجہ صحیح ہی ہو،تو ایسی صورت میں اسے استعمال کرنا اوراس کے ذریعے دوسروں کو جواب دینا جائز ہوگا اور صرف اس صورت میں اس کی مثال نبض دیکھ کر مرض کا اندازہ لگانے جیسی ہوگی۔
مگر آج کل بیشترنجومیوں اور ستارہ شناسوں کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے،بعض ان علامات سے استدلال کرکے علم غیب کا دعوی کرتے ہیں،اوربعض کواس سے حاصل ہونے والے علم پرخود بھی اعتماد ہوتا ہےاور دوسروں کو بھی اس پر یقین دلاتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے پاس آنے والے لوگوں کا بھی عموما یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ ستارے دیکھ کر یا اپنے مؤکلات سے معلوم کرکے قسمت کا حال بتاتے ہیں اور ان کے بتائے ہوئے احوال اور خبروں کے پوراہونے کا انتظار کرتے ہیں ،اگرپوری ہوجائیں تو ان کے اعتقاد میں مزید پختگی آجاتی ہے،جو آگے چل کر ان کےایمان کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔
الغرض نجومیوں اورستارہ شناسوں کےپاس جانے اور ان سے مستقبل کی باتیں پوچھنے میں عقائدفاسد ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں،اس لیےمسلمانوں کےایمان کی حفاظت کےلیےاس کی صراحتاً ممانعت وارد ہوئی ہے۔
سورة الانعام(97)
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهْتَدُوا۟ بِهَا فِى ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٩٧﴾
سورةجاسیة(13)
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ
صحيح مسلم(7/ 37 ط التركية)
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: « مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً »
ترجمہ:جو شخص کسی نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے تو چالیس رات تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجه(3726)
عن ابن عباس رضی الله عنه قال:قال رسول الله ﷺ: (من اقتبس علما من النجوم، اقتبس شعبة من السحر، زاد ما زاد).
ردالمحتار(1/43)
(قوله والتنجیم)هو علم یعرف به الاستدلال بالتشکلات الفلکیة علی الحوادث السفلیة، وفي مختارات النوازل لصاحب الهداىة أن علم النجوم في نفسه حسن غیر مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق،وقد نطق به الکتاب،قال الله تعالی﴿الشمس والقمر بحسبان﴾ أي سيرهما بحساب، واستدلال بسیر النجوم وحرکة الأفلاک علی الحوادث بقضاء الله تعالی وقدره،وهو جائز کاستدلال الطبیب بالنبض من الصحة والمرض ولو لم یعتقد بقضاء الله تعالی أو ادعی الغیب بنفسه یکفر، ثم تعلم مقدار ما یعرف به مواقیت الصلاة والقبلة لابأس به. وأفاد أن تعلم الزائد علی هذا المقدار فیه بأس بل صرح في الفصول بحرمته وهو مامشی علیه الشارح. والظاهر أن المراد به القسم الثانی دون الأول، ولذا قال في الإحیاء: إن علم النجوم في نفسه غیر مذموم لذاته إذ هو قسمان الخ ثم قال ولکن مذموم في الشرع.
وقال عمر: تعلموا من النجوم ماتهتدوا به في البر والبحر ثم أمسکوا،وإنما ذجر عنه من ثلاثة أوجه:
أحدهما: أنه مضر بأكثر الخلق، فإنه إذا ألقى إليهم أن هذه الآثار تحدث عقيب سير الكواكب وقع في نفوسهم أنها المؤثرة.
وثانيها: أن أحكام النجوم تخمين محض، ولقد كان معجزة لإدريس – عليه السلام – فيما يحكى وقد اندرس.
وثالثها: أنه لا فائدة فيه، فإن ما قدر كائن والاحتراز منه غير ممكن اهـ ملخصاً.
الفتاوى الهندية(5/ 378)
«وعلم يجب الاجتناب عنه وهو السحر وعلم الحكمة والطلسمات وعلم النجوم إلا على قدر ما يحتاج إليه في معرفة الأوقات وطلوع الفجر والتوجه إلى القبلة والهداية في الطريق»
الفتاوى الهندية (5/ 377)
وتعلم علم النجوم لمعرفة القبلة وأوقات الصلاة لا بأس به والزيادة حرام كذا في
الوجيز للكردري