امام مسجد سے ناراضگی اور عداوت کی بنا پر جماعت ترک کرنا

امام مسجد سے ناراضگی اور عداوت  کی  بنا پر جماعت ترک کرنا جائزہے یا نہیں؟

فتویٰ نمبر:335

الجواب حامداًومصلیاً

یہ عذر ترک جماعت کا شرعاً لغو اور غلط ہے کیونکہ اگر امام کاشرعاًکوئی قصور نہیں ہے تونمازیوں کی ناراضگی کااثرنمازمیں کچھ  نہیں ہوگا اور نماز بلا کراہت درست ہوجائےگی البتہ ناراضگی  کی وجہ سے نمازی حضرات گہنگار ہوں گے اور اگر امام شرعاًقصوروار ہےاس وجہ سے نمازی حضرات اس سے ناخوش ہیں توپھر اسکی امامت مکروہ ہےایسے شخص کو امامت نہیں کرانی چاہیے۔

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 559)

(وَلَوْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، إنْ) الْكَرَاهَةُ (لِفَسَادٍ فِيهِ أَوْ لِأَنَّهُمْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ مِنْهُ كُرِهَ) لَهُ ذَلِكَ تَحْرِيمًا لِحَدِيثِ أَبِي دَاوُد «لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ» (وَإِنْ هُوَ أَحَقَّ لَا) وَالْكَرَاهَةُ عَلَيْهِمْ.

مراقي الفلاح – (1 / 143)

لو أم قوما وهم له كارهون فهو من ثلاثة أوجه إن كانت الكراهة لفساد فيه أو كانوا أحق بالإمامة منه يكره وإن كان هو أحق بها منهم ولا فساد فيه ومع هذا يكرهونه لا يكره له التقدم لأن الجاهل والفاسق يكره العالم والصالح قال صلى الله عليه و سلم ” إن سركم أن تقبل صلاتكم فليؤمكم علماؤكم فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم وفي رواية فليؤمكم خياركم

اپنا تبصرہ بھیجیں