نہیں.
قرآن کریم دلوں کی اس استعداد کے مردہ ہونے کو کئی جگہوں پر زیر بحث لاتا ہے. ایک جگہ فرمایا : کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون. (ان کے دلوں پر ان کی بد اعمالی نے زنگ لگا دیا ہے. ) اس دھوکے کی وجہ سے انسان کو بعض اوقات ایسے عمل میں کسی جرم کا احساس نہیں ہوتا تو وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ میرا دل تو پاک ہے، یہ دوسرے کی نظر کی ناپاکی ہے کہ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس کا دھوکا ہے. اس کو بد عملی کی کثرت نے دل سے حساسیت کا احساس چھین لیا ہے کہ جس کام پر ایک نیک انسان اللہ کے آگے اشک ندامت بہاتا ہے وہ اس کو ایک روٹین کی چیز سمجھنے لگتا ہے. اگر یہ آدمی اس عمل کو ترک کر کے کچھ عرصہ نیک ماحول اختیار کرے قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر سے دل کو پاک کرنے کی محنت کرے تو کچھ عرصے بعد اسے خود احساس ہو گا کہ دل میں ایک روشنی پیدا ہو رہی ہے. وہی برا عمل جس پر دل گناہ کے احساس سے محروم ہو چکا تھا اس پر آنکھوں میں آنسو آنے لگا ہے اور خیر اور شر کی حدود واضح ہونے لگی ہیں. جدید طرز زندگی نے انسان کو اگر کوئی نا قابل تلافی نقصان دیا ہے تو وہ یہی دل کی حساسیت کا مرنا ہے