انتقال کے بعد قرآن خوانی

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی کے انتقال کے بعد اس کے گھر والے سب رشتہ داروں کو سپارے بانٹیں کہ تم کو ایک پڑھنا ہے، تم کو پانچواں پڑھنا ہے۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟ اور جس کو دیا ہے پڑھنے کے لیے، اس کے لیے پڑھنا ضروری ہے؟

والسلام

سائل کا نام: أمة اللة

الجواب حامدا و مصليا

وعلیکم السلام و رحمة الله!

قرآن مجید کی تلاوت ایک بڑی عبادت ہے، مگر آج کل قرآن خوانی کا جو طریقہ رائج ہے اس میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں لہذا اگر چند شرائط کا خیال رکھا جائے تو گنجائش ہے۔

پہلی شرط:

قرآن خوانی کے لیے ایک جگہ جمع نہ ہوا جائے، بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرے۔

دوسری شرط:

جو شخص جتنا آسانی کے ساتھ پڑھ سکے، وہ اتنا پڑھے۔

تیسری شرط:

جس شخص نے پڑھنے کا کہا ہے، اس کے سامنے یا دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کیاجائے کہ کتنا پڑھا ہے۔

لہذا ان تین شرائط کی رعایت کرتے ہوئے نہ پورے قرآن شریف کو ختم کرنا لازم سمجھا جائے، اور نہ ہی ایک جگہ جمع ہونے کی پابندی کی جائے، بلکہ ہر شخص اپنے طور جتنا آسانی سے ہوسکے، پڑھ لے۔ (مستفاد: مروجہ قرآنی خوانی کی شرعی حیثیت: مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب۔) قرآن پڑھنے والوں کی نیت محض رضائے الٰہی ہو، قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، قرآن کی تلاوت کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ نہ قرآن پڑھنے والوں کو ثواب ملے گا اور نہ ہی میّت کو۔ لوگوں کے درمیان پارے تقسیم کر کے ختم قرآن کرنا، ایصال ثواب کا یہ طریقہ نبی کریمﷺ سے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں۔ میت کے ایصال ثواب کے لیے ضروری نہیں کہ پورا قرآن ختم کیا جائے۔ خلوص کے ساتھ اگر سورة فاتحہ اور سورة اخلاص پڑھ دی جائے وہ بھی کافی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوا اور اس نے سورت یٰسین کی تلاوت کی، مردوں سے اﷲ تعالیٰ عذاب ہلکا فرما دیں گے اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی۔

“إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ”. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56)

“قال من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰسین خفف اﷲ عنھم وکان لہٗ بعدد من فیھا حسنات۔ (شرح الصدور للسوطحا، ص ۱۳۵)

و اللہ سبحانہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں