انتقال کی تشہیر نہ کرنے کی وصیت کرنے کا حکم

سوال:السلام علیکم!

عورت اگر وصیت کرے کہ میرے انتقال پر لوگوں میں اعلان نہ کرایا جاۓ اور خاموشی سے صرف گھر والے مسجد میں جنازہ پڑھ کر دفنا دیں کیا ایسی وصیت جائز ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام!

واضح رہے کہ وصیت کے نفاذ کی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وصیت ایسے کام کی ہو جو خلافِ شرع نہ ہو، اگر وصیت خلافِ شرع کام کی ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں۔

صورت مسئولہ میں اگر خاتون نے اپنے انتقال کی خبر کی تشہیر نہ کرنے کی وصیت کی ہے تو ایسی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ نماز جنازہ کا اعلان کرنا شرعاً جائز ہے،نیز اعلان کی صورت میں کثیر تعداد میں لوگ نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں گے جو شرعاً مطلوب وپسندیدہ ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ” اگر کسی کے انتقال پر تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھیں تو اللہ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ وَعَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ مَاتَ لَهُ ابْنٌ بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ فَقَالَ: يَا كُرَيْبُ انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَهُ مِنَ النَّاسِ؟ قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوا لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: تَقُولُ: هُمْ أَرْبَعُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: أَخْرِجُوهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَايُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ”.

( مشكاة المصابيح: 1/523)

ترجمہ:

“حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب حضرت عبداللہ بن عباس کے بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ مقام قدید یا مقام عسفان میں (کہ جو مکہ کے قریب جگہیں ہیں) ان کے صاحب زادے کا انتقال ہوا (اور جنازہ تیار ہوا) تو انہوں نے کہا: ” کریب! جا کر دیکھو کہ نماز جنازہ کے لیے کتنے آدمی جمع ہوگئے ہیں؟ حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں (یہ دیکھنے کے لیے) نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں، میں نے واپس آکر حضرت عبداللہ بن عباس کو بتایا (کہ بہت لوگ جمع ہو گئے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا: تمہارے خیال میں ان لوگوں کی تعداد چالیس ہوگی؟ میں نے عرض کیا :” ہاں” حضرت ابن عباس نے فرمایا: تو پھر جنازہ (نماز کے لیے ) باہر نکالو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرے اور اس کے جنازہ کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے”۔

2۔ “مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ فَیُصَلِّيْ عَلَیْهِ ثَلاَثةُ صُفُوْفٍ مِنَ المُسْلِمِیْنَ إلاَّ أَوْجَبَ”.

(مشکاة عن أبی داود:147)

ترجمہ:

“جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے (جنت) کو واجب کر دے گا”۔

3۔ “والوصية بالمعصية باطلة”.

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:37)

4۔ “أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئاً معيناً فهي باطلة، سراجية، وسنحققه”.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار): 6/ 666)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

23 جمادی الثانیہ 1443ہ

27 جنوری 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں