استنجاء سے عاجز کا حکم اور بوجہ مجبوری کسی اور سے استنجاء کرانا

استنجاء سے عاجز کا حکم اور بوجہ مجبوری کسی اور سے استنجاء کرانا

اگر کوئی شخص بیماری یا بیماری کے بعد کمزوری کی وجہ سے خود استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو یا کسی شخص کے دونوں ہاتھ شل یا کٹے ہوئے ہوں یا ایک ہاتھ شل یا کٹا ہوا ہو اور ایک ہاتھ سے استنجاء ممکن نہ ہو تو ایسی صورتوں میں وہ کسی اور سے استنجاء کرا سکتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے تمام فقہاء اللہ رحمھم اللہ تعالی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اپنی بیوی یا باندی سے استنجاء کرانا ضروری ہے اور بغیر استنجاء کے اس کی نماز نہ ہوگی البتہ اگر اس کی بیوی نہ ہو تو اپنے بیٹے ، بھائی یا والد سے استنجاء کرواسکتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے فقہاء کرام رحمھم اللہ کی عبارات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں استنجاء معاف ہے لیکن محقق العصر مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے تتمہ احسن الفتاوی میں لکھا ہے کہ اصل میں دوسرے شخص سے استنجاء کرانے کی ممانعت کی علت یہ ہے کہ بغیر حائل کے کسی غیر کے شرم گاہ کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے ، اگر کسی حائل کے ساتھ ہو اور نگاہوں کو نیچے رکھے تو ممنوع نہیں ہے لہذا استنجاء کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ، اگر بیوی یا باندی ہو تو وہ استنجاء کرائے ، اگر نہ ہو تو پانی کے پائپ یا فوارہ(شاور) کے ذریعے نجاست کو صاف کیا جائے ، اگر یہ بھی ناممکن ہو تو ہاتھ پر موٹا کپڑا لپیٹ کر استنجاء کرایا جائے۔اگر کسی طرح بھی استنجاء کرانا ممکن نہ ہو تو بغیر استنجاء کے نماز پڑھے اور ٹھیک ہونے کے بعد ان کا اعادہ کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں