کام کے دوران اذان کا جواب دینا

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! سوال یہ ہے کہ کیا اذان کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جس حالت میں ہوں اسی حالت میں رک جائیں اور اذان کا جواب دیں یعنی کھڑے ہوں تو کھڑے رہیں بیٹھے ہوں تو بیٹھے رہیں لیٹے ہوں تو لیٹے رہیں کیا ایسا کرنا ضروری ہے یا پھر ہم اپنے معمول کے کام کرتے ہوئے اذان کا جواب دے سکتے ہیں ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

اذان کے دو طرح کے جوابات ہیں:

۱۔’’عملی جواب‘‘ یہ واجب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے بعد تمام کاموں کو چھوڑ کر نماز کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہونا ضروری ہے، اگر کوئی آدمی اذان سننے کے بعد بھی نماز کے لیے نہیں جاتا تو وہ گناہ گار ہوگا۔

۲۔’’قولی جواب‘‘ یہ مستحب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اذان سن کر زبان سے اذان کے کلمات نہیں دہراتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم اذان میں چونکہ اللہ تعالی کی بڑائی ہوتی ہے اس لیے زبان سے جواب دینا بہتر ہے۔

قال العلامۃ الکاسانیؒ:

“ولا ینبغی ان یتکلّم السامع فی حال الاذان والا قامة ولایشتغل بقراءۃ القرآن ولا بشىيئ من الاعمال سوی الاجابة ولو کان فی القرأۃ ینبغی ان یقطع ویشتغل بالاستماع والاجابة.

(بدائع الصنائع: 155/1، فصل مایجب علی السامعین عندالاذان)

قال العلامة ابن عابدینؒ:

“وینبغی للسامع ان لا یتکلّم ولا یشتغل بشىيئ فی حالة الاذان والاقامة ولا یردّ السّلام ایضاً لان الکل یخل بالنظم”.

(ردّالمحتار: 399/1، باب الاذان۔مطلب فی کراھیة تکرار الجماعة فی المسجد)

فی الدرالمختار:

“(ویجب) وجوبًا، و قال الحلواني: ندبًا، والواجب بالقدم (من سمع الأذان) ولوجنبًا لاحائضًا ونفساء وسامع خطبته وفي صلاة جنازة وجماع ومستراح و أکل وتعلیم علم وتعلمه، بخلاف قرآن”.

وقال الشامي تحت (قوله: بخلاف قراٰن): لأنه لایفوت، جوهره، ولعله؛ لأن تکرار القراءة إنما هو للأجر، فلا یفوت بالإجابة بخلاف التعلم، فعلی هذا لو یقرأ تعلیمًا أو تعلّمًا لایقع، سائحاني”.

(الشامي: 411/1)

في الشامية:

“فهذه قرینة صارفة للأمرعن الوجوب، وبه تأید ماصرح به جماعة من أصحابنا من عدم وجوب الإجابة باللسان، و أنها مستحبة، و هذا ظاهر في ترجیح قول الحلواني، وعلیه مشی في الخانیة والفیض … الخ”.

(الشامي: 414/1)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں