کیا مردے سن سکتے ہیں؟

سوال: کیا مردے سن سکتے ہیں؟

جواب:

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں:

1.عام مردوں سے متعلق۔

2 انبیائے کرام سے متعلق۔

عام مردے قبروں میں سنتے ہیں یا نہیں؟ اس حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سماع موتی(مردوں کے سننے) کے قائل تھے جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس موقف کو تسلیم نہیں کرتی تھیں، یہی اختلاف ان کے شاگردوں یعنی دیگر صحابہ وتابعین میں منتقل ہوا اور یہی اختلاف ائمہ مجتہدین سے عصر حاضر تک منتقل ہوا اور حقیقت یہ ہے کہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور سے اختلاف رہا ہو اس کا فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہے.

تاہم اس حوالے سے درمیانی رائے یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں جن مواقع پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے، ان مواقع پر تو مردوں کا سننا یقینی طور پر ثابت مانا جائے، مثلا: میت کو دفنا کر جب لوگ لوٹتے ہیں تو مردہ ان کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے.

اس کے علاوہ جہاں اللہ پاک اپنی قدرت سے مُردوں کو سنادے کہ جس میں کسی کو کچھ دخل نہ ہو، تو ایسا ہونا بالکل ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق کی قدرت سےکوئی چیز خارج نہیں۔

2.دوسری بات کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں زندہ ہیں یا نہیں؟ تو اس حوالے سے امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات برزخیہ دنیا سے جانے والوں میں سب سے اعلی ہے، حتی کہ وہ اپنی قبور مبارکہ میں بھی دنیاوی حیات کی طرح زندہ ہیں ،مگر احکام کے مکلف نہیں. ان کی حیات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ان کے اجسامِ مبارکہ محفوظ ہیں، اللہ تعالیٰ نے مٹی پر ان کے اجسامِ مبارکہ کھانا حرام کردیا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی؛ میراث زندوں کی تقسیم نہیں ہوتی. تیسرا ان کی ازواج کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں، ظاہر ہے جس کا زوج حیات ہو اسی کے لیے نکاح ہر نکاح منع ہے. چوتھا، حدیث مبارک کی روسے رسول اللہ ﷺ کے روضہ شریف پر آکر درود و سلام پڑھنے والے کا سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس سماعت فرماتے ہیں اور سن کر خود جواب دیتے ہیں اور جو لوگ دور سے درود و سلام پڑھیں ان کا سلام فرشتے خدمتِ اقدس میں پہنچادیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ اس کا جواب دیتے ہیں۔ پانچواں، مشہور حدیث ہے کہ الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون یعنی انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور مبارکہ میں زندہ ہیں وہ اپنی قبور مباتکہ میں نمازیں پڑھتے ہیں. چھٹا، یہ اجماعی عقیدہ ہے. تاہم اس حیات کی کیفیت کا ہمیں مکمل علم نہیں.

بہرحال مردوں کے سننے یا نہ سننے کے حوالے سے اختلاف انبیاءِ کرام علیہم السلام کے سماع کے حوالے سے نہیں ہے، نہ ہی اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش ہے بلکہ اکابر کی تصریحات کے مطابق انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات کا منکر اہل السنۃ الجماعۃ سے خارج ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔………..

حوالہ جات

1…. قال اللّٰه تعالى: وما يستوي الاحياء ولاالاموات -ان الله يسمع من يشاء-وما انت بمسمع من فى القبور (٢٢)

2…. «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِينَ يُوَلُّونَ عَنْهُ»۔.[ المستدرك على الصحيحين (ج/1ص/536) سندہ صحیح]

3… عن انس بن مالك رضي الله عنه قال:قال رسولُ اللّٰه صلى الله عليه وسلم” الانبياء احياء في قبورهم يصلون”(الجامع الصحيح للسنن والمسانيد:١/٤٠٧)

ترجمہ: آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

4… عن ابى هريرة رضي الله عنه قال:قال رسولُ اللّٰه صلى الله عليه وسلم” من صلّٰى على عند قبري سمعته ومن صلّٰى ناىٔيًاابلغتُه”

ترجمه: آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجتا ہے میں سنتا ہوں اور جو دور سے درود بھیجے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے”(مشکوة المصابيح)

5… “ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آ پ کی حیات دنیا کی سی ہے بلامکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور شھداء کے ساتھ، یہ وہ حیات برزخی نہیں ہےجو تمام مسلمانوں بلکہ تمام آ دمیوں کو حاصل ہے، چنانچہ علامہ سیوطی نے اپنے رسالہ”انباءالاذکیا بحیوةالانبياء”میں بتصریح لکھا ہے-چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا: انبیاء وشہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے-پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہےاور اس معنے کر برزخی بھی ہے کہ عام برزخ میں حاصل ہے .

(المہند علی المفند:ص٣١)

6… مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ آیت “انك لا تسمع الموتى ولا تسمع الصم الدعاء”کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

” اس آ یت کا مطلب یہ سمجھو”یعنی تم یہ نہیں کر سکتے کہ کچھ بولو اور اپنی آ واز مردے کو سنادو”کیونکہ یہ چیز ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہے،البتہ حق تعالیٰ کی قدرت سے ظاہری اسباب کے خلاف تمہاری بات مردہ سن لے اس کا انکار کوئی مومن نہیں کر سکتا-اب نصوص سےجن باتوں کا اس غیر معمولی طریقہ سے سننا ثابت ہو جائے گا اسی حد تک ہم کو سماع موتی کا قائل ہونا چاہیے.”

(تفسیر عثمانی،سورةالروم:٥٢)

واللہ الموفق

اپنا تبصرہ بھیجیں