ایوان صنعت وتجارت کراچی     KCCI                                                                 

Karachi Chamber of Commerce and industry

جناب افتخارا حمد  وہرا کراچی  چیمبر آف کامرس اینڈ   انڈسٹری  (KCCI) کے   پریذیڈنٹ  ہیں۔ یہ مختلف  پبلک   سیکٹر   باڈیز اور گورنمنٹ   کارپوریشنز  کے ممبر رہ  چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ  مختلف تعلیمی   اداروں  اور یونیورسڑیوں  کے ممبر  بھی رہ چکے ہیں ۔ دہرا  برادرز کراچی   کے چیف   ایگزیکٹوآفیسر  بھی ہیں ۔ انفارمیشن   ٹیکنالوجی  KCCI کے سابق چئیر مین   ہیں۔ پولیمر ویسٹ  امپوئرزاینڈ  ری سائیکلر  ایسوسی  ایشن   کے وائس  چئیر مین  ہیں۔   بزنس  کے سلسلے  میں مختلف   ممالک  کا سفر   بھی کرچکے ہیں ۔35 سال   سے پلاسٹک   کا کام  کر رہے ہیں ۔ایجوکیشن   میں  میری  بیچلز آف کامرس ( B.COM) ہیں۔ کئی ایوارڈ بھی ملے ہیں ۔PCDMA کے چئیر مین  بھی رہے  ۔  مزاج  میں سلامتی ، دھیماپن  اور بردباری  نمایاں اوصاف   ہیں اور وہ یہ سمجھتے  ہیں کہ میری  طبیعت   میں کسی سے  لڑنا جھگڑنا  نہیں ہے  اور یہی  میری کامیابیوں  کا بنیادی   راز ہے  ۔

کراچی  چیمبر آف کامرس کے صدر  اور معروف   بزنس مین

افتخار احمد وہرا

کی شریعہ اینڈ بزنس سے گفتگو

شریعہ اینڈ بزنس

امپورٹ میں  ماشاء اللہ  آپ کا کا فی تجربہ  رہا ہے ۔ لوگ  اس کے بارے میں بہت زیادہ پوچھتے   ہیں۔ خصوصا ً میڈیم  انڈسٹریز کی بڑی خواہش ہوتی  ہے  کہ وہ امپورٹ ، ایکسپورٹ   میں ہاتھ ڈالیں ، تو ایک  نئے آنے والے   کو آپ  کیا نصیحت  کریں گے   کہ امپورٹ   ، ایکسپورٹ  میں کیا کیا  اہم چیزیں  ہیں جن کا خیال  رکھنا چاہیے   ؟

 افتخار احمد  وہرا :   میرا تعلق امپورٹ  ہی سے رہا ہے ،ا یکسپورٹ   بھی اچھی چیز ہے ۔ جب   کسی چیز کی آپ تجارت  کرتے ہیں تو آپ کو یہ پتا  نہیں ہوتا  کہ یہ چیز  کس سے بنی  ہے ؟ کیاکیا چیزیں  اس میں شامل  ہیں؟   لیکن میں نے   ہمیشہ یہ کوشش کی ہے  ۔ کوئی  بھی کیمیکل  ہے تو  میں یہ دیکھتا تھا کہ یہ بنا کیسے ہے  ؟

 اس کی بنیادی  چیزیں  کیاہے  ؟ پھر  اگر اس کیمیکل  میں کوئی   اور فارمولیشن کرنی ہے ، کوئی اور  اس کا استعمال   ہے ۔ مثلا  : میں یہ کیمیکل  ابھی  پتھر والوں کو دے رہا تھا تو یہ اور کہاں کہاں استعمال  ہوسکتا ہے ؟اس کے لیے   میں  کتابوں سے مدد لیا کرتا تھا  ۔

اسی طرح   میں یہ بھی  دیکھتاتھا   کہ یہ چیز دنیا میں  اور کہاں  کہاں  بن رہی   ہے ؟  اگر میں victoria سے کوئی چیز منگوارہا ہوں  تو اور کہاں  سے مجھے یہ  سستے میں مل  سکتی ہے  ؟ تو میں  اپنی پروڈکٹس  کے بارے میں اسٹڈی جاری رکھتا تھا،ان  کی بیسک  کمیسٹری   سے میں واقف   ہونا چاہتا   تھا۔ اس طرح  اللہ کا  شکر ہے  کہ مجھے کیمیکل کی فیلڈ میں  کافی تجربہ ہوا ۔  پھر  امپورٹ  کے معاملے میں  بھی   میری یہ جستجو برقرار رہی ۔

امپورٹ  ایک بہت ٹیکنیکل کام ہے ، آسان کام نہیں  ہے،   لیکن میں یہ دیکھتا تھا کہ ڈاکو  مینٹیشن  کیسے ہورہی ہے  ؟ invoice کس کو کہتے  ہیں؟  بل آف  لیڈنگ   کیاہے ؟  وغیرہ ۔ حالانکہ   یہ کام   کلیئرنگ  ایجنٹ  کرتے تھے   لیکن میں  معلومات  ضرور حاصل   کرتاتھا۔ کسٹم  کے قوانین  ، سیلز ٹیکس  کے قوانین  امپورٹ   کی ٹیکنیکل   چیزیں  ، پالیسی  آرڈر   کیاچیز  ہے؟ سب میں  بڑی مہارت   اور تجربہ   ھاصل ہوگیا اور میں   اپنے تجربات شئیر  بھی کرتا ہوں ۔

ایک اور چیز جو میں  ضرور لوگوں  کو بتانا چاہوں گا، کہ  آپ جس کاروبار  سے بھی منسلک  ہوں،  اس کو اچھا سمجھیں ، کوئی کاروبار  بھی برا نہیں ہوتا۔  دوسرے نمبر  پر یہ کہ آپ کا کاروبار جن  دنوں  میں مندا بھی چل   رہا ہو تو آپ   اللہ کا شکر  ادا کریں ۔ ہول سیل  کے کام   میں ہوتا تھا کہ دو دو، تین  تین مہینے   کاروبار نہیں ہوتے تھے ، چھ مہینے بھی کاروبار بند   رہتے  ہیں ،لیکن  میں کبھی   اللہ کی نا شکری  میں مبتلا  نہیں ہوا۔ ناشکری   اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ ہمیشہ  اللہ کا  شکر   گزار  رہنا چاہیے  ۔

 شریعہ اینڈ بزنس

چیمبر آف   کامرس اس وقت  کیا کردار  ادا کررہا ہے   اور  آپ کی  نظر میں  وہ کون کون  سے پہلو ہیں ، جن  پر ابھی    مزید   توجہ کی ضرورت  ہے ؟

 افتخار  احمد وہرا

 دیکھیں  ! بزنس کو بڑھانے  میں چیمبر آف  کامرس کا کردار  بہت ہی اہم  ہے۔  یا یوں کہہ لیں کہ  ہمارے ملک میں اکانومی   کو آگے   بڑھانے  کے لیے چیمبر آف  کامرس کا ایک کلیدی  کردار ہے ۔ خاص طور پر  کراچی چمبر  آف کامرس چونکہ  پورے پاکستان  کا سب سے بڑا honour ہے ۔ جتنا  بڑا یہ honour ہے،اتنی   ہی بڑی   ذمہ داری  بھی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں  کہ جو شخص اس جگہ  آنا چاہے   تو وہ یہ سوچ   کر آئے   کہ میں نے پورے عزم (determination  کے ساتھ   یہاں  پہ بیٹھ کر   اپنے فرائض   ادا کرنے  ہیں۔ یہ 24 گھنٹے  کی جاب ہے ، میں یہاں  بیٹھ   کر کوئی  اور کام  یا کاروبار نہیں   کرسکتا  ،

 شریعہ اینڈ بزنس  :SRO’s  کے بارے میں بزنس  کمیونٹی  میں بہت زیادہ   باتیں ہوتیں ہیں ، تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ SRO’s   پر قابو  پایا گیا  ہے یا نہیں ؟ یہ معاملہ  کس حد تک  پہنچا  ہے ؟

افتخار احمد  وہرا

ہمارے ملک   میں SRO’s کا  جس  بری  طرح استعمال  کیا گیا اور ہماری   اکانومی  کا جو برا حال   ہے ، وہ اس وجہ سے   ہے کہ سیاست دان ، بیوروکریٹس، بزنس کمیونٹی  اور مختلف  لوگوں   نے اتنے  :SRO’s   ایشو کرائے کہ اکانومی  کا بیرا غرق  کردیاگیا۔ اب لوگوں  نے پھر آوازیں بھی اٹھانا شروع  کی ہیں ،ا ب   جو بھی  کنسیشزی  SRO’s تھے ، حکومت   نے وعدہ کیا ہے کہ   وہ آہستہ آہستہ   مرحلہ وار  ان کو ختم   کرنا شروع  کردیں گے ۔ چیمبر آف  کامرس بھی  ہر وقت  یہ آواز  اٹھاتا  ہے کہ جو  بھی اس قسم   کے   SRO’s  ہیں،ا ور ناجائز  طور پر   مراعات   کسی خاص انڈستری کو، کسی خاص   شخص کو دی گئی  ہیں ، وہ واپس   لی جائیں  ،

شریعہ اینڈ بزنس : ہمارا  میگزین  چونکہ صرف   کارپوریٹ   سیکٹر میں جاتا ہے ، تو آپ  کارپوریٹ سیکٹر   کو کیا بتانا چاہیں گے   کہ بزنس کے لیے بہترین  انواےر منٹ   دنیا بھر  میں کہاں کہاں   پر ہے  ؟

افتخار احمد وہرا

  سب سے پہلے   یہ ہے کہ ہمارے  اپنے ملک  میں آج   کل کے لحاظ  سے بہت  زیادہ  پوٹینشل  اور مواقع ہیں ، دنیا  میں  بہت سارے   ملکوں  میں اس سے ابتر حالت  ہے،لیکن  آپ نے  اس کو کیش کس طرح  کروانا ہے؟  یہ ایک  بنیادی  چیز ہے ۔ اگر  لاء اینڈ آرڈر  کی صورت  حال بہتر ہوجائے اور  ہمارا  ٹیکسیشن  سسٹم  بہتر ہوجائے ،کیونکہ  سب سے  بنیادی کردار  اس میں ٹیکسیشن  سسٹم کا ہے ۔ ہمارا ٹیکسیشن  کا نظام  بالکل فرسودہ  ہے۔اس کی وجہ  سے کئی  لوگ  اپنے کاروبار کو صحیح  طریقے  سے نہیں  چلاسکتے ،اس میں کرپشن  کا کوئی  نہ کوئی عنصر  ضرور شامل  ہوجاتا ہے ۔ اس وقت  ہمارے ملک  میں ریسرسز بھی  ہیں ،ہمارے  پاس زمین  بھی ہے ،لوگ  بھی ہیں،ساری  چیزیں  موجود ہیں۔ تو اگر ٹیکسیشن  سسٹم صحیح ہوجائے اور energy کرائسز بھی حل  ہوجائیں  تو پاکستان  جوانو یسمنٹ  کی صورت حال  میں ہے،  میں سمجھتا ہوں  کہ یہ سب سے  بہتر  اور اگلے  چار ،پانچ  سال میں ان شاء اللہ  اور بھی بہت بہتر  ہوجائے گی ۔

شریعہ اینڈ بزنس

آپ کا امپورٹ  سے  بہت  زیادہ تعلق رہا، آپ مختلف  طرح کے  لوگوں  سے ملے ، تو آپ  نے پاکستانی بزنس مینوں  میں وہ کون  سی چیزیں  دیکھیں  جن میں  بہتری  لانے کی ضرورت  ہے ؟ کون کون  سے بزنس ایتھکس ہیں  جو یہاں  نہیں ہیں؟

افتخار  احمد وہرا

دیکھیں  ! اس میں  بہت  سی چیزیں  ہیں  جن  میں کافی  تبدیلی  کی ضرورت  ہے،لیکن  شروع میں پاکستان  میں ٹائم  کی پابندی  کوئی  نہیں کرتا تھا۔ کمٹمنٹ  کا فقدان  تھا۔ اسی طرح  شروع کے زمانے میں اتنی  اوئیرنس بھی نہیں پائی  جاتی تھی ، بالخصوص  انٹر نیشنل  ٹریڈ  کے بارے میں ۔ تو جن   لوگوں میں   یہ خامیاں  نہیں پائی  جاتی تھیں ،انہوں نے  بہت تیزی  سے grow کیا اور بہت  آگے بڑھ   گئے ۔ اس کے  بر خلاف  جو لوگ  غلط راستے   کے ذریعے  راتوں  رات ارب  پتی بننے   کے خواہش مند   تھے،وہ پاکستان  کے لیے بھی بدنامی  کا ذریعہ   بنے اور   اپنے بزنس  کو بھی سخت   نقصان  پہنچایا۔

  شریعہ اینڈ بزنس

دنیا بھر میں  ملٹی نیشنل کمپنیوں کا عروج  ہے ،ایک ایک   کمپنی   اتنا بڑا   ریونیو Generate کر رہی ہے  جو پورے  ایک بر اعظم   کاریونیو ہوتا ہے ۔ پاکستان   میں ایسی  کمپنیوں   کی تعداد  بہت کم ہے ، اس کی کیا بنیادی  وجوہات ہیں؟

  افتخار احمد  وہرا

اس کی وجہ بنیادی  طور پر  وہی   ہےکہ شروع سے ہمارے   ہاں بزنس  کلچر  ڈیویلپ   نہیں ہوسکا،   جن لوگوں  اچھے  ایتھکس کے ساتھ   اپنا کام  شروع  کیا تو  وہ آج  اس لیول   پر  ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی  وجوہات  ہیں۔اسی میں  سیاسی  وجوہات  بھی آجائیں گی ،البتہ  پاکستان بننے  کے بعد  ایوب   خان  کا دور اس حوالے  سے کافی  اچھا رہا ۔ ہم نے  جرمنی اور جاپان  کو بھی  لون دیا تھا۔   اس زمانے  میں industrialization  ہوئی ۔ ہم معاشی   لحاظ   سے بہت   زیادہ آگے  تھے،  لیکن اس  کے بعد پھر  نیشلائزیشن آئی ۔میں   سمجھتا  پوں کہ اس میں سیاسی   فیصلے ، لیڈر   شب کا  فقدان ، اسی   طرح اور بھی   کچھ بین الاقوامی وجوہات  بنیں ، آخری  کے 20  سے 25 سال   تو ہم   نے بہت برے   حالات دیکھے ہیں ، اس میں اس   جیسے لیول  کی بڑی کمپنیاں  زیادہ نہیں بن سکیں ، لیکن   اب آہستہ   آہستہ لوگ  عمل  سے گزررہے  ہیں۔   یہ تبدیلی   کاروباری دنیا  کے لیے ضرور ہوتی ہیں ۔ ایک پالیسی  کامیاب  نہیں  ہورہی تو دوسری  پالیسی ، دوسری    نہیں  ہورہی   تو تیسری  پالیسی ، تو ان دو، تین   چیزوں   پر توجہ  دینے  سے  ہم اب  بھی کافی آگے   بڑھ  سکتے ہیں ۔ پاکستان  میں  scope کی ، پوٹینشل  کی کمی نہیں ہے۔

شریعہ  اینڈ بزنس

بزنس کمیونٹی  کے نام  کوئی پیغام  دینا چاہیں گے  ؟

افتخار  احمد وہرا

 بزنس کمیونٹی  کے نام   میرا پیغام  یہ  ہے کہ  اپنے ملک  کے ساتھ محبت   کریں ۔ یہ ہماری  پہچان  ہے۔   دوسرے  ملکوں   میں  آفسز ضرور  بنائیں ، انگلینڈ   میں بنائیں ، کینیڈا میں   بنائیں ، لیکن  آپ کا اپنا ہیڈ آفس  کراچی  میں ہو  نا  چاہیے ۔ یہاں   سے ایسپورٹ   کریں ۔ پوری   دنیا  کے لوگوں   کا یہی حال  ہوتا ہے ۔ جو پاکستانی بیرون ملک   میں ہیں ، ان کو اپنا پیغام   دینا چاہوں گا  کہ وہ آئیں  اور  یہاں  آکر   انویسمنٹ  کریں ۔ یہ ایک اچھا   وقت  ہے۔ اپنے اداروں   اور اپنی اگلی نسل  کے لیے کام کریں۔ پاکستان میں ہی انشاء اللہ  آپ کو سکون   بھی ملے گا۔ پہلے  یہاں   سے ہی لوگ   اپنا کیپیٹل   باہر   لے کر  جاتے  تھے،  وہ کیپٹل  انہوں   نے یاہں  سے ہی  کامای تھا۔ اس لیے   اپنی   انویسمنٹ   کو پاکستان  میں ہی  رکھیں ،یہیں آپ   کو خوشی ملے  گی  ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں