فتویٰ نمبر:3074
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
جب ہم کہیں سے خریداری کرتے ہیں تو پھر وہاں پر لکی ڈرا میں انعام نکلتے ہیں تو ان کا لینا جائز ہے یا نہیں؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
جو چیز خریدی جارہی ہے اگر وہ چیز ہی خریدنا مقصود ہے، انعام کے لالچ میں نہ خریدی جارہی ہو اور اس کی خریداری کی وجہ سے قرعہ اندازی میں شمولیت بغیر کسی اضافی رقم کے ہو تو وہ انعام لینا جائز ہے۔بشرطیکہ خریدار کو کسی بھی مرحلے پر اس انعام کے قانونی مطالبے کا حق نہ ہو بلکہ فروخت کرنے والے کی مرضی پر موقوف ہو چاہے تو انعام دیں اور چاہے تو دینے سے انکار کر لیں.
تاہم بغیر کسی ضرورت کے صرف انعام کی لالچ میں وہ سامان خریدا تو یہ صورت اگرچہ صریح قمار تو نہیں؛ کیونکہ قیمت کے بدلے سامان مل چکا ہے، البتہ اس میں ایک گونہ قمار کا شبہ پایا جارہا ہے، اس لیے اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔(مستفاد : احکام القمار از مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ مشمولہ جواہر الفقہ)
◼المعاملات المالیة اصاله ومعاصرة:(٣٣٠/٣)
“فلأن هذه الجوائز إذا قسمت عن طريق القرعة، قد يأخذ من أقْرَض مبلغا قليلاً، جائزة قيمتها مرتفعة جداً، ويأخذ من أقرض مبلغا كبيرًا، جائزة قيمتها قليلة، ويدفع طمع الناس بالحصول على الجوائز المرتفعة إلى شراء هذه السندات، وهذا واضح فيه القمار والميسر”۔
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:19 جمادی الاول1440ھ
عیسوی تاریخ:26 جنوری 2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: