خلع لینا کس صورت میں جائز ہے

سوال: اگر كسى كا شوہر بہت بداخلاقى سے پیش آتا ہو اور کسى صورت بهى نہیں رکتا ہو اور گالى گلوچ بهى کرتا ہو، ہر طریقے سے سمجها لیا مگر پهر بهى باز نہ آتا ہو، اس صورت ميں عورت کیا کرے؟ اور اب ان سب باتوں کا بچوں پر بهى برا اثر ہو رہا ہے اور جبکہ عورت اپنے شوہر کا ہر صورت خیال رکهتى ہو اور شوہر نان ونفقے میں بھی کمزور ہو اور بيوى اس کمى کو اپنے سيکهے ہوئے ہنر سے گهر کے اور بچوں کے اخراجات پورے کرتى ہو تو اب بيوى کیا کرے کیا وه خلع لے سکتى ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب 

آپ کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کریں اور خلع نہ لیں، اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے عورت کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے، اور اس پر سخت وعید آئی ہے۔ 

لہٰذا آپ خاندان کے بزرگوں کے سامنے یہ مسائل رکھیں پھر وہ آپ کے شوہر کو سمجھائیں اور اس سے کوئی ضامن مانگیں جو کہ آئندہ آپ کی شکایات پیش نہ آنے کی ضمانت دے، اگر شوہر ایسا ضامن دے دے تو آپ اپنا گھر بسا رہنے دیں اور خلع نہ لیں، لیکن وہ اس پر راضی نہ ہو اور نہ مکمل خرچہ دیتا ہو اور آپ کے لیے موجودہ صورت میں گھر بسانا ممکن نہ ہو تو  شوہر سے کسی طرح طلاق لے لیں، لیکن اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  پھر اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر یا مہر نہ لیا ہو تو اس کے عوض  شوہر کی رضامندی سے خلع لے لیں، لیکن یہ ملحوظ رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کا یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنے سے شرعاً خلع معتبر نہیں ہوتی، اور نکاح بدستور برقرار رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن أبي داود (2/ 234):

“حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة”.

فتاوی عالمگیری میں ہے:

“اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال”.

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں