کیا باپ کا بیٹی کو بغیر شہوت کے بوسہ دینے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی؟

سوال:اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کسی نے مسئلہ پوچھا ہے کہ جیسے ہونٹوں پر اگر سسر بہو کے بوسہ دیں تو حرمت مصاہرت آجاتی ہے شہوت ہو یا نہ ہو تو کیا یہی صورت باپ کے لئے بھی ہوتی ہے اور کیا؟؟ ماں کے لے بھی یہی معاملہ ہوتا ہے اگر وہ اپنے جوان بیٹے کے رخسار پر بوسہ دے جس نے پوچھا ہے وہ اپنے بیٹے کے رخسار پر بوسہ دیتی تھے محبت کے ساتھ

اور جب سے ان کو اس مسئلہ کا معلوم ہوا ہے وہ بہت پریشان ہیں ان کو مسئلے کا علم نہیں تھا اور اپنے جوان بیٹے کے رخسار پر بوسہ دیتی رہی ہیں

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ !

مذکورہ صورت میں اگر باپ نے اپنی جوان بیٹی کی پیشانی کو یا ماں نے جوان بیٹے کو محض محبت میں بوسہ دیا ہو اور شہوت اس وقت جانبین میں سے کسی میں بھی نہ ہوتو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی، لیکن حتی الامکان اس سے گریز کرنا چاہیے، خدانخواستہ بوسہ لیتے ہوئے شہوت پیدا ہو جائے تو سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔

==================

“عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أم المؤمنین قالت : ما رأیت أحدأ أشبہ سمتًا ودلا وہدیا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قیامہا وقعودہا من فاطمۃ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت : وکانت إذا دخلت علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قام ألیہا فقبلہا وأجلسہا في مجلسہٖ ، وکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل علیہا قامت من مجلسہا فقبلتہ وأجلستہ في مجلسہا الخ ۔”

( سنن الترمذي ۲ ؍ ۲۲۶ )

“الدليل عليه: أن محمداً رحمه الله في أي موضع ذكر التقبيل لم يقيده بشهوة، وفي أي موضع ذكر المس والنظر فيه قيدهما بالشهوة لكن ثبوت الحرمة بالمس مشروط بأن يصدقها الرجل أنه بشهوة فإنه لو كذبها وأكبر رأيه أنه بغير شهوة لم تحرم وفي التقبيل والمعانقة حرمت ما لم يظهر عدم الشهوة كما في حالة الخصومة ويستوي فيها أن يقبل الفم أو الذقن أو الخد أو الرأس وقيل إن قبل الفم يفتى بها وإن ادعى أنه بلا شهوة وإن قبل غيره لا يفتى بها إلا إذا

ثبتت الشهوة بشهوة”

( المحيط البرهانی ج ۳ ص ۱۷۰ تا ۱۷۴ المؤلف : محمود بن أحمد بن الصدر الشهيد النجاري برهان الدين مازه المحقق :الناشر : دار إحياء التراث العربي الطبعة : عدد الأجزاء:11)

“في التقبیل یفتی بثبوت الحرمۃ ما لم یتبین أنہ قبل بغیر شہوۃ الخ ، ولو أخذ ثدیہا وقال ما کان عن شہوۃ لا یصدق ؛ لأن الغالب خلافہ ۔”

( الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۲۷۶ )

“والمباشرۃ عن شہوۃ بمنزلۃ القبلۃ وکذا المعانقۃ ۔ “

( الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۲۷۴ )

“الا أن یقوم إلیہا منتشرًا آلتہ فیعانقہا لقرینۃ کذبہ أو یأخذ ثدیہا أو یرکب معہا أو یمسہا علی الفرج أو یقبلہا علی الفم ۔”

( الدر المختار مع الشامي ۴ ؍ ۱۱۵ زکریا ، ۴ ؍ ۹۲ بیروت ، دیکھئے : مجموعہ قوانین اسلامی ۲۰۵ )

“لو مس أو قبل ، وقال : لم أشتہ صدق إلا إذا کان اللمس علی الفرج ۔”

( البحر الرائق ۳ ؍ ۱۰۰ کراچی )

“فقد ذکر الصدر الشہید أن في القبلۃ یفتی بثبوت الحرمۃ ما لم یتبین أنہ قبل بغیر شہوۃٍ … لأن الأصل في التقبیل الشہوۃ ، بخلاف المس والنظر … ولو کانت مباشرۃ ، وقال : لم یکن عن شہوۃ لم یصدق ۔ “

( الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴ ؍ ۵۵ رقم : ۵۵۱۱ زکریا )

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں