کیا پرانے قرآنی اوراق کو جلایاجاسکتا ہے

 فتویٰ نمبر:577

سوال:پرانے قرآن کے اوراق کو جلایا جا سکتا ہے یا کیا کیا جائے؟

جواب:قرآن کریم کے اوراق اگر اتنے بوسیدہ ہوگئے ہوں کہ بوسیدگی کی وجہ سے تلاوت کے قابل نہ ہوں ان کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ میں جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو دفن کردیا جائے اور بہتر یہ ہے کہ بوسیدہ اوراق کو دفنانے کے لیے بغلی قبر بنائی جائےتاکہ مقدّس اوراق پر مٹی نہ پڑےاگر صندوقی قبر بنائی گئی تو اِن اوراق پر مٹی پڑے گی جس میں ایک گونہ تحقیر ہے ہاں!اگر اس پر تختوں وغیرہ کے ذریعے چھت بنادی گئی تو پھر صندوقی قبر بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ اِن اوراق کے ساتھ وزنی پتھر باندھ کر سمندر میں احتیاط سے ڈالا جائے تاکہ وہ تہہ میں چلے جائیں اگر کہیں یہ دونوں صورتیں دُشوار ہوں اور جلائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اِس صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ اوراق کے الفاظ پر کوئی پاک روشنائی وغیرہ پھیر دی جائےکہ وہ بالکل نظر نہ آئیں اس کے بعد اوراق جلا کر کسی محفوظ مقام پر راکھ دفن کردی جائے اور اگر کثرتِ تعداد کی وجہ سےتمام نسخوں کے الفاظ پر روشنائی پھیرنا مشکل ہو تو اِس صورت میں اہانت سے بچانے اور احترام کے قصد سے انہیں جلانے کی گنجائش ہے اور بہتر یہ ہے کہ راکھ کسی محفوظ مقام پر دفن کردی جائےالبتہ وہ تختیاں جن پر آیات یا اللہ تعالیٰ یا رسول اللہﷺ کا اسمِ گرامی ہواُن کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آیات اور مذکورہ اسماءِ مقدّسہ کو دھویا جاسکتا ہو تو ان تختیوں میں سے آیات،اللہ تعالیٰ اور سول اللہﷺ کے اسمِ گرامی کو نکال کر مذکورہ بالا تفصیل پر عمل کیا جائےالبتہ تختیوں کے باقی حصّہ کو جلا دینا جائز ہے۔

(مأخذہ التبویب۸۱/۴۴۹)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (6 / 422)

وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں