کیا سفر میں دو وقت کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ سکتے ہیں

سوال:کیاسفر میں ظہر عصر یا عصر مغرب کی نماز اکھٹی پڑھ سکتے ہیں ؟

فتویٰ نمبر:101

جواب:حضراتِ احناف رحمہم اللہ کے نزدیک حج کے دوران مزدلفہ اور عرفۃ کے علاوہ اور کہیں بھی دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنا جائز نہیں بلکہ گناہ ِکبیرہ ہےالبتہ سفرکی حالت میں اس بات کی اجازت ہے کہ ظہر کو اس کےآخری وقت میں اور عصر کو اس کے اپنے وقت کے شروع میں ،اسی طرح مغرب کو آخری وقت میں اور عشاءکو اس کے اپنے وقت کے شروع میں ادا کرلیاجائے،اسے اصطلاح ِ شریعت میں جمعِ صوری کہاجاتاہے،نیز جن روایات سے آپ ﷺ کا عام نمازوں میں بھی جمع کرنا معلوم ہوتا ہے وہ بھی احناف کے نزدیک اسی جمع صوری ہر محمول ہیں۔
صحيح مسلم – عبد الباقي – (1 / 491)
عن بن عباس قال * صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ثمانيا جميعا وسبعا جميعا قلت يا أبا الشعثاء أظنه أخر الظهر وعجل العصر وأخر المغرب وعجل العشاء قال وأنا أظن ذاك
فی عمدة القاري شرح صحيح البخاري – (ج 7 / ص 367)
وقال الخطابي وقد اختلف الناس في جواز الجمع بين الصلاتين للمطر في الحضر فأجازه جماعة من السلف روي ذلك عن ابن عمر وفعله عروة بن الزبير رضي الله تعالى عنهم وابن المسيب وعمر ابن عبد العزيز وأبو بكر بن عبد الرحمن وأبو سلمة وعامة فقهاء المدينة وهو قول مالك والشافعي وأحمد بن حنبل غير أن الشافعي اشترط في ذلك أن يكون المطر قائما في وقت افتتاح الصلاتين معا وكذلك قال أبو ثور ولم يشترط ذلك غيرهما وكان مالك يرى أن يجمع الممطور في الطين وفي حالة الظلمة وهو قول عمر بن عبد العزيز وقال الأوزاعي وأصحاب الرأي يصلي الممطور كل صلاة في وقتها
الدر المختار – (1 / 381)
( ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر ) سفر ومطر خلافا للشافعي وما رواه
محمول على الجمع فعلا لا وقتا ( فإن جمع فسد لو قدم ) الفرض على وقته ( وحرم لو عكس ) أي أخره عنه
حاشية ابن عابدين – (1 / 382)
قوله ( محمول إلخ ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا
واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں