لمحہ فکریہ                                                          

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

٭    ”اور کچھ دوسرے مسلمان ایسے ہیں جو اﷲ کا فضل (تجارت یا روزگار) تلاش کرنے کےلیے زمین میں سفر کرتے ہیں۔”         (المزمل، آیت :20) 

٭     ”اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ اپنے پروردگار سے ”روزی” طلب کرو!”

(البقرہ، آیت 198)

٭    ”اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔”    (النبا، آیت :11)

٭    ”اور اﷲ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کیا کرو!”         (الجمعہ،آیت :10) 

یہ طلوع اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تہائی رات کی مقدارتہجد پڑھنا فرض تھا۔ گھڑیوں کا رواج نہیں تھا اس لیے  نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  احتیاط کے پیش نظر تہائی رات سے کافی زیادہ مقدار مثلاً: کبھی آدھی رات، کبھی دو تہائی کے قریب تہجد پڑھنے میں گزاردیتے تھے۔ تہجد کی نماز تمام مسلمانوں پر ایک سال تک فرض رہی۔ ایک سال بعد اﷲ جل شانہ نے عام مسلمانوں سے اس کی فرضیت کو کالعدم قراردے کراسے صرف مستحب کا درجہ دیدیا۔ 

نماز تہجد کی فرضیت ختم کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟  خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ وجوہات بیان کیں ہیں۔ (دیکھیے : سورہ مزمل آیت 20) ان وجوہات میں سے ایک وجہ مسلمانوں کے روزگار اور معاشی حالات میں مشکلات اور تنگی تھی۔ رات کی نیند قربان کرکے تہجد کے لیے  اٹھنا اور پھر تہائی سے زیادہ رات اﷲ کی عبادت میں مصروف رہنا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ جس سے دن کے معمولات اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں متاثر ہونا لازمی امر ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں  تجارت اور تلاش روزگار کی کافی اہمیت ہے۔ اسلام مسلمانوں کو معاشی طور پر یکسو اور خود کفیل دیکھنا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کی تجارتی و اقتصادی ترقی کا حامی ہے اور معیشت و تجارت کے لیے  وسعت اور نرمی کا قائل ہے نیز اس سے اسلام میں انسانی ضرورتوں کے احترام کے مسئلہ پر بھی گہری روشنی پڑتی ہے۔

یہ درج بالا آیات میں سے پہلی آیت کا پس منظر اور اس سے ماخوذ قیمتی نکات ہیں۔ اس کے بعد مذکور قرآنی آیات میں تجارت اور تلاش رزق کوایک جائز اور ضروری عمل قرار دیا گیا ہے اور باور کرایا گیا ہے کہ حصول رزق کے ذرائع ”اﷲ کا فضل” ہیں اور دن کی تخلیق کا ایک مقصد تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا فروغ ہے۔ 

احادیث مبارکہ میں بھی تجارت اور حصول رزق کے ذرائع اختیار کرنے کی اہمیت اور فضائل وارد ہوئے ہیں۔ 

٭  ایک حدیث میں حلال کمائی کو  ”دینی فریضہ”  قرار دیا گیا ہے۔          (بیہقی )

٭     ”بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ حصول معاش کے لیے  محنت و مشقت کے سوا اور کوئی نہیں۔”                         (طبرانی)

٭     ”لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلانے اور ان کی محتاجی سے بچنے کی غرض سے رزق کے حصول کے لیے محنت و مشقت کرنا  اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔”                            (طبرانی)

٭     ” سچے تاجر قیامت کے دن عرش کے سایے میں ہوں گے۔” (جامع الصغیر)

٭    ”سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا سچا تاجر ہوگا۔” (کنزالعمال)

دنیا میں تین قسم کے طبقے پائے جاتے ہیں: ایک کمائی دھندے میں غرق طبقہ، جسے آخرت اور شریعت کے احکام کی بالکل فکر نہیں۔

دوسرا وہ طبقہ جسے کمانے کی فکر ہے نہ آخرت اور شریعت کی جو دنیا کو یا تو موج مستی کی جگہ سمجھتا ہے یا سستی کاہلی کا بے انتہا شکار ہے۔ تیسرا وہ جو آخرت، احکام شریعت اور تجارت و ملازمت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔

ان طبقات میں تیسرا طبقہ اسلام کے مسلک اعتدال سے ہم آہنگ ہے اور سطور بالا میں مذکور فضائل کا مصداق بھی یہی طبقہ ہے۔ یہ طبقہ تجارت وملازمت کے دوران بھی عبادت اور دینی فریضہ انجام دے رہا ہوتاہے اور دنیوی مال و متاع انہیں حضرات کے لیے  ”خیر” اور ”اﷲ کا فضل ”ہے۔شریعت کے احکام پر عمل کی برکت سے رب العزت ان کے کاروبار کی ناگہانی آفات سے غیبی حفاظت بھی فرماتے ہیں۔ 

جبکہ دوسری طرف جو تاجر اپنی نجی زندگی اور کاروباری مصروفیات میں احکام شریعت کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے ان کی کاروباری مصروفیات عبادت درجہ نہیں رکھتیں  بلکہ ان کے لیے ان کا مال سراسر فتنہ دھوکہ، گناہوں کی جڑ اور آخرت کی رسوائی کا سامان ہے اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ ناگہانی آفات کے ذریعے کاروباری نقصان دے کر دنیا میں بھی ان کو اپنی نافرمانی کی سزا دے دیتے ہیں۔

اللہ جل شانہ کاارشاد ہے:

٭     اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو آپ ان کو ایک بڑی درد ناک سزا کی خبر سنا دیجےے جو کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا۔ یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کرکے رکھا تھا سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔              (التوبہ : آیت 35-34)

٭     ”اور یہ دنیوی زندگی (یعنی دنیوی مال و متاع) تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں” (آل عمران: آیت ١٨٥)

٭     ”تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو فتنہ ہے۔”         (تغابن: آیت ١٥)

    حدیث مبارکہ ہے: 

٭    ”دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔”                 (مشکوۃ)

٭    ”تاجر طبقہ قیامت کے دن فاسق اور گناہ گار بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے اس شخص کے جو تقویٰ   نیکی اور سچائی اختیار کرے۔”             (دارمی،ترمذی)

    جو لوگ مال و دولت کے حصول اور کاروباری کی ترقی کے لیے  جھوٹ، ملاوٹ، رشوت، دھوکہ، سود، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی قلت اور دیگر غیر شرعی معاملات کو خاطر میں نہیں لاتے اور کاروبار میں اتنے منہمک ہوجاتے ہیں کہ نماز، روزہ، اہل و عیال اور محتاجوں کے حقوق سے بے فکرے رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمہید اور وعید پر مشتمل آیات و احادیث ایسے ہی طبقے کے لوگوں کے لیے  ہیں۔

    تاجر برادری اور ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کے لیے  لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کس طبقے میں اپنا شمار کرانا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں