لو میرج کرنے کیسا ہے

فتویٰ نمبر:583

سوال: لو میرج کرناکیساہے ؟

جواب:سب سے پہلے یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نکاح ،زندگی کا ایک ایسا اہم معاملہ ہے جس کے انسانی زندگی پر دُوررَس اثرات مرتب ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں شریعت کا مزاج یہ کہ ہر اہم معاملہ کو والدین کی سرپرستی میں انجام دیا جائے اور حتی الوسع اُ ن کی مرضی کا خیال رکھا جائے ، بلا وجہ ا ُن کی مرضی کے خلاف کرنا شرعاً مناسب نہیں ہےخصوصاً جبکہ والدین کو عملی تجربہ بھی ہوتا ہے ،تاہم والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی اولاد کی جائز ضرورت اور معتبرخواہش کی حتی المقدور رعایت کریں بالخصوص اولاد جہاں رشتہ کرنا چاہ رہی ہے وہاں اگر والدین کی خاندانی وجاہت ،عزت وشرافت اور دینی اقدار متاثر نہ ہو تو والدین کو اولاد کی خواہش کو ٹھکرانا نہیں چاہیے،بلکہ رشتہ کا معاملہ باہمی صلاح و مشورے سے اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں،بغیر کسی معقول وجہ ایک دوسرے کی بات کو رد نہ کریں اور نہ ہی لڑکے کی مرضی اور پسند کے خلاف اس کو مجبور کریں،اگر والدین پھر بھی راضی نہ ہوں اور جہاں والدین رشتہ کرنا چاہتے ہوں اس کے بارے میں اگر بالغ اولاد کوظنِ غالب ہو کہ وہاں اس کا نباہ نہ ہو سکے گا اور زندگی خوشگوار بسر نہ ہوسکے گی تو اولاد کو چاہیے کہ اولاً نرمی اور خوش اُسلوبی کےساتھ والدین کو رضامند کرنے کی ہرممکن کوشش کرے اور والدین کی رضا مندی سے شادی کرے،اگر باوجود کوشش کے والدین رضا مند نہ ہوں تو بالغ اولاد کو اپنے والدین کی بات نہ ماننے کی گنجائش ہے اور وہ اِس انکار کی وجہ سے گناہ گار بھی نہیں ہوں گی ،البتہ اس کے بعد بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی خدمت باعثِ سعادت ہےاِ س میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

اوراگر والدین بغیر کسی معقول وجہ(جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) کے، عاقل بالغ اولاد کو اپنی مرضی کی جگہ نکاح کرنے پر مجبورکریں تو شرعاً اُنہیں یہ حق حاصل نہیں ہےاور ان کا یہ عمل گناہ سے خالی نہیں ہو گا
=========================================
قال الله تعالىٰ:
{فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ} [النساء : 3]
=========================================
التفسير المظهري – (2 ق 2 / 6)
فالاولى ان يقال معناه ما استطاب منهن أنفسكم ومالت أنفسكم إليهن وهذا انسب بجميع التأويلات
=========================================
قال الله تعالىٰ:
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ} [لقمان : 14]
=========================================
تفسير القرطبي – (14 / 64)
وجملة هذا الباب أن طاعة الأبوين لا تراعى في ركوب كبيرة ولا في ترك فريضة
على الأعيان، وتلزم طاعتهما في المباحات، ويستحسن في ترك الطاعات الندب
=========================================
صحيح البخاري – (7 / 17)
عن أبي سلمة، أن أبا هريرة، حدثهم: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن» قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: «أن تسكت»
=========================================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 55)
(قوله ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب
إلى الوقاحة بحر وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة
=========================================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 58)
(قوله ولا تجبر البالغة) ولا الحر البالغ والمكاتب والمكاتبة ولو صغيرين ح عن القهستاني (قوله البكر) أطلقها فشمل ما إذا كانت تزوجت قبل ذلك، وطلقت قبل زوال البكارة فتزوج كما تزوج الأبكار نص عليه في الأصل بحر (قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح فلان يخطبك أو يذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها بحر عن المحيط.
=========================================
الفتاوى الهندية – (1 / 269)
(ومنها) رضا المرأة إذا كانت بالغة بكرا كانت أو ثيبا فلا يملك الولي إجبارها على النكاح عندنا، كذا في فتاوى قاضي خان
=========================================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
 

اپنا تبصرہ بھیجیں