مغرب کی نماز میں تاخیر کا حکم

سوال:مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر کی کہ ستارے نظر آ نے لگے تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب:

واضح رہے کہ اذانِ مغرب کے بعد فرض نماز جلد از جلد پڑھنی چاہیے اور اگر دو رکعت سے کم تاخیر ہو تو یہ بلاکراہت جائز ہے۔البتہ بغیر شرعی عذر کے اس قدر تاخیر کرنا کہ ستارے ظاہر ہوجائیں تو یہ مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔

================================================================

حوالہ جات

1)قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تزال امتى بخير أو قال على الفطرة ما لم يؤخرو المغرب الى ان تشبيك النجوم.

ترجمه: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے امت ہمیشہ بھلائی پر رہے گی یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک وہ لوگ مغرب کو اس وقت تک موخر نہ کریں گے کہ ستارے نکل آئیں۔

(سنن ابی داؤد: 66/1)

2) فاما صلاة المغرب فالمستحب تعجيلها فى كل وقت وقد بينا ان تاخيرها مكروه وكان عيسى ابن ابان رحمه الله تعالى يقول الاولى تعجيلها للآثار ولكن لا يكره التاخير مطلقا الا ترى ان بعذر السفر والمرض تؤخر المغرب ليجمع بينها وبين العشاء فعلا فلو كان المذهب كراهة التاخير لما ابيح ذلك بعذر السفر-

(المبسوط للسرخسى: 146)

3)وقت المغرب من غروبها الى مغيب الشفق وهو البياض الكاىٔن في الافق بعد الحمرة وقالا هو الحمرة قيل ويه يفتى.

(مجمع الانهر في شرح ملتقى الابحر:105/1)

4)(و ) اخر (المغرب الى اشتباك النجوم) اى كثرتها (كره) اي التاخير لا الفعل لانه مامور به (تحريما)الا بعذر كسفر وكونه على اكل۔

(رد المحتار على الدر المختار: 33/34/2)

5)جب سورج ڈوب گیا تو مغرب کا وقت آ گیا پھر جب تک پچھم کی طرف آ سمان کے کنارے پر سرخی باقی رہے تب تک مغرب کا وقت رہتا ہے لیکن مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ تارے خوب چٹک جائیں کہ اتنی تاخیر کرنا مکروہ ہے-

(بہشتی زیور: 131)

والله سبحانه وتعالى اعلم

10/5/1443

16/12/21

اپنا تبصرہ بھیجیں