معاملات  میں مسلمانوں کی غفلت

 بعض مسلمانوں کا یہ خیال ہے   کہ اسلام  ایک  محدود  دین ہے  جو صرف نماز روزہ اور  دیگر  عبادات  سے متعلق راہ نمائی  کرتا ہے ، جبکہ  تجارت،  کاروبار ،ملازمت  اور معاملات  سے متعلق کوئی راہ نمائی  فراہم  نہیں کرتا بھی  ہے تو وہ اس جدید  دور کے لیے   ناکافی ہے ۔

دوسری طرف  بعض مسلمانوں  کا یہ نظریہ تو نہیں، البتہ  ان کا عمل   ان کے نظریے  کی نفی کرتا ہے ۔ وہ  معاملات  سے متعلق احکامات  سیکھنے  اور عمل  کرنے میں اتنی فکر مندی  اور چستی  کا مظاہرہ نہیں کرتے  جس قدر  عبادات سے متعلق کرتے ہیں ۔یاد رکھئے  ! عبادات نماز، روزہ  حج یہ دین  کا صرف ایک چوتھائی  حصہ ہیں ۔بقیہ  تین چوتھائی  دین   معاملات  سے متعلق ہے ۔اسلامی فقہ  کی کوئی بھی مکمل  کتاب   آپ اٹھا  کر موازنہ  لیجئے  ! آپ  کو یہ جان  کر حیرت  ہوگی  کہ نماز، روزہ، حج  کے مسائل  ایک چوتھائی  بلکہ اس سے   بھی کم   ہیں ۔باقی  سارے  مسائل  معاشرت  اور معاملات  وغیرہ  سے متعلق ہیں۔  آج ہم  ایک چوتھائی  دین  پر عمل  کرنے کی فکر  میں رہتے  ہیں۔  بقیہ  تین  چوتھائی  دین پر عمل  کرنے کی فکر  کیوں نظر  نہیں آرہی ؟ معامالت  سے مسلمانوں  کی اس قدر   غفلت کی کیا وجہ ہے؟

کچھ سازش  کچھ کوتاہی  :

جب سے دنیا پر استعمال کا غلبہ  ہوا،اس وقت  سے دین  کو ایک منظم  سازش  کے تحت  صرف  عبادت گاہوں ، تعلیم گاہوں  اور زاتی  زندگی  تک محدود   کردیاگیا ہے ۔سیاسی  اور معاشی  سطح پر دین کی گرفت  نہ صرف یہ کہ  ڈھیلی پڑگئی  ہے بلکہ  رفتہ رفتہ ختم  ہوچکی ہے۔ آج  سیکولرازم  نظرئیے  کا برا شور سنائی  دیتا ہے کہ اجتماعی امور،  مثلا  : معیشت اور  سیاست  وغیرہ مذہب  سے آزاد  ہیں  اور کوئی مذہب  بشمول اسلام  اس سلسلے  میں کوئی پابندی  عائد نہیں  کرتا ۔ جبکہ انفرادی   اور ذاتی کام مثلا ً : نماز روزہ عبادات کے سلسلے میں  کوئی پابندی  عائد نہیں  کرتا ۔ جبکہ انفرادی اور ذاتی کام    مثلا:  نماز،روزہ  عبادات  کے سلسلے  میں انسان  جس مذہب  میں سکون  پائے ،اسے اختیار  کرسکتا ہے ۔گویا عبادات  کے  شعبے  میں مذہبی  احکامات  پر عمل ، انسانی  حق  ہونے کی  وجہ سے نہیں، بلکہ راحت  اور سکون   کے حصول کے لیے ہے  ( معاذ اللہ )

 جب مغربی  استعمار   نے اسلامی   ملکوں  پر اپنا تسلط  جمایا  تو اس نے سیکولر ازم  کا  یہ نظریہ  بھی خوب پھیلایا اور بروز  شمشیر پھیلایا  ۔انہوں نے  سیاسی  اور معاشی  اداروں  سے دین کا رابطہ توڑا۔ وہ اس رابطے  کو توڑنے  کے لیے  ایسا تعلیمی  نظام  بھی رائج  کرنے میں کامیاب ہوگئے  جس نے  دین کا   رشتہ  سیاست ، معشیت  اور زندگی  کے دوسرے شعبوں  سے کاٹ  دیا اور مذہب کو محدود  کر کے رکھ دیا۔

ایک  طرف  دشمنوں  کی یہ سازش  تھی  اور دوسری  طرف اس سازش کے کامیاب  ہونے میں کچھ  حصہ  ہمارے اپنے طرز عمل  کا بھی  ہے کہ ہم نے اپنی  زندگی  میں   جتنی  توجہ عبادات کے اوپر  صرف  کی اتنی توجہ  زندگی کے  دوسرے شعبوں  کی طرف  نہیں دی ۔ہمارے  عمل میں جتنا  اہتمام  اور عبادات  کی درستگی   کا تھا اتنا اہتمام  معملات،  معاشرت  اورا خلاق کی درستگی کا نہیں تھا ۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد  ہے:  ” لوگوں  پر ایک وقت  ایسا بھی آئے گا کہ انسان  اس بات کی پرواہ  نہیں کرے گا  کہ جو چیز اس نے حاصل  کی ہے  وہ حلال  ہے یا حرام ؟

 آج موجودہ  زمانے میں ہامری  بالکل یہی  حالت  ہے۔لوگوں  کو حلال  حرام کی کوئی پرواہ نہیں  رہی ۔ بس صرف  پیسے سے  مطلب  ہے خواہ   وہ کہیں  سے بھی  حاصل ہواور  کسی  بھی طریقے  سے حاصل  ہو!!!

حالانکہ  ایک مسلمان  اور کافر  میں رزق حاصل  کرنے کے حوالے  سے یہی فرق ہے کہ  کافر  محض  پیسہ  کمانے  کی مشین  ہوتا ہے ۔ وہ رزق کے حصول  کے لیے  حلال  حرام  میں تمیز نہیں کرتا  جبکہ مسلمان  کو ایک ایک  پیسے کے بارے  میں یہ فکر لاحق ہوتی  ہے کہ  یہ پیسہ  حلال طریقے  سے آرہا ہے  یا حرام طریقے سے  ؟

 کرنے  کے کام  :

 اس لیے آج   ضرورت  اس امر  کی ہے کہ ہم  عبادات سے متعلق احکامات  جاننے  اور ان پر عمل   کرنے کے ساتھ ساتھ  اپنی تجارت ،پیسے  اور ملازمت  وغیرہ  سے متعلق بھی اسلامی  احکامات  سے آگاہی  حاصل  کر کے ان  پر عمل کریں  !

ارشاد نبوی ﷺ ہے:  علم حاصل  کرنا ہر  مسلمان پر فرض ہے ۔”  ( بیہقی)

اس حدیث  کے تحت  علماء یہی   فرماتے ہیں  کہ زندگی  کے جس شعبے   سے مسلمان  وابستہ  ہو اس کی حلال  حرام  کی صورتیں  جاننا  اس کے لیے  نماز روزے  کی ادائیگی  کی طرح  فرض ہے  اور  روز قیامت  اس کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی ۔

ہمیں چاہیے  کہ کسی بھی  ذریعہ معاش کوا ختیار  کرنے سے پہلے  اس کی ناجائز صورتیں   اہل علم  سے معلوم  کریں ! نیز اس کام کے دوران  جو نئی نئی  صورتیں  پیش آتی ہیں  ان کا حکم  بھی علماء  کرام  سے معلوم  کر کے  اس کے مطابق  عمل کرتے  رہیں ۔

ایسا کرنا  شاید  ابتداء  میں آپ  کے لیے  باعث  مشقت  ہو مگر  یاد رکھئے  کہ اس طرح  آپ کا تجارت  ومعاملات  کے مسائل  کا جاننا  حدیث  کی رو سے  ہزاروں  رکعت  نفل  سے بہتر ہے  ۔ ساتھ ہی  ساتھ اس اس طرح  مسائل سیکھ  کر عمل  کرنے  سے آپ  کی تجارت ، ملازمت ، زراعت  ودیگر  معاملات  بھی عبادت  بن جائیں گے  اور ان پر  آپ کو اجر  وثواب  ملے گا  جیسا نماز،  روزے  وغیرہ  پر ملتا ہے ۔

اس وقت  ہمارے مسلمان  تاجروں  کی سب سے  بڑی ذمہ داری  یہ ہے کہ وہ قرآن  وسنت  کی ہدایتوں  کو مد نظر  رکھتے ہوئے  دنیا  کے سامنے  ایک ایسا  عملی نمونہ  پیش کریں  جو دوسروں  کے لیے باعث  کشش ہو۔ جو شخص ایسا  کرے گا  تو وہ اس دور  کی سب سے  بڑی  ضرورت  کو پورا  کرے گا ۔

اسی طرح یہ بات  بھی یاد رکھنی چاہیے  کہ ہر انسان  اپنے اعمال  کا جوابدہ  ہے۔اس لیے  اس شیطانی  دھوکے  میں نہیں  آنا چاہیے  کہ جب تک  سب لوگ  نہ بدلیں  میں بھی نہیں بدلوں گا۔ ہمیں اپنے  حصے  کا کام  کرتے  ہوئے اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنی  چاہیے  کیونکہ اللہ  تعالیٰ   کی سنت  یہ ہے کہ  جب ایک  چراغ   ھلتا ہے تو اس ایک سے  دوسرا چراغ  جلتا ہے  اور جلے گا ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ اپنی رحمت  سے یہ جذبہ  وعزم  ہمارے  دلوں  کے اندر  پیدا  فرمادے   جو اس وقت  کی بڑی  اہم ضرورت  ہے اور  ان باتوں  پر عمل  کرنے کی توفیق عطا  فرمائے ۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں