میت کو مخصوص دن ایصال ثواب کرنا

سوال: میت کے بعد سات جمعرات اور کل اور قرآن خوانی کی جاتی ہے کیا یہ جائز ہے ؟

جواب:ایصالِ ثواب فی نفسہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے،لیکن اس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا دن یا وقت یا اجتماعی کیفیت شرعاًمقررنہیں،بلکہ ہرشخص انفرادی طورپرکوئی بھی نفل عبادت کرکےایصالِ ثواب کرسکتاہے، مثلاًنفل نمازیں،نفل روزے،نفل حج و عمرہ،قرآنِ کریم کی تلاوت،تسبیحات،کلمۂ طیبہ پڑھ کریا حسبِ توفیق نقدرقم یاکھاناوغیرہ صدقہ خیرات کرکے یا تعمیر ِ مساجد ،دینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی فی سبیل اللہ اشاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے اللہ میرے اس عمل کاجو کچھ ثواب آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب فلاں شخص کوپہنچادیجئے،بس اس سےمرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا،ایصالِ ثواب کی حقیقت شریعت میں فقط اتنی ہی ہے ۔

آجکل ایصالِ ثواب کے لئے جو مختلف رسمیں اور صورتیں مثلاً تیجہ ( سوئم ) ، دسواں ، چالیسواں ، سالانہ عُرس، جمعرات کو جمع ہونا وغیرہ کی شکل میں یا اجتماعی قرآن خوانی کی صورت میں یا مروّجہ ختم کی صورت میں رائج ہو گئی ہیں، یہ سب بدعت اور ناجائز ہیں، نیز جو حضرات جمع ہوتے ہیں ،ان میں سے بعض تو مذکورہ رسموں میں اس نیت سے شریک ہوتے ہیں کہ اگر شریک نہ ہوئے تو دعوت دینے والے ناراض ہونگے ،بعض کی نیت میل ملاقات،اور بعض کی نیت صرف کھانے پینے کی اور بعض کی قرآن خوانی پر اجرت لینے کی ہوتی ہے ،ایسی صورت میں پڑھنے والے ہی کوثواب نہیں ملتاتوایصالِ ثواب کیسا…!

ان رواجی طریقوں میں شرکت کرنےاورکھاناکھانے سے اجتناب کیاجائےبالخصوص اگر میت کے ترکہ میں سے خیرات کی گئی ہواورورثاء میں بعض نابالغ ہوں یا ورثاء عاقل بالغ ہوں لیکن ان کی دلی رضامندی کے بغیر یہ خیرات کی گئی ہوتواس کا کھاناہرگزجائز نہیں۔
حاشية ابن عابدين – (6 / 56)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا . إنا لله وإنا إليه راجعون
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 240)
وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755)
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
كتاب الاعتصام للشاطبي – (1 / 22)
ومنها : التزام الكيفيات والهيئات المعينة ، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيداً، وما أشبه ذلك .
ومنها : التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة ، كالتزام صيام يرم النصف من شعبان وقيام ليلته
تنقيح الفتاوى الحامدية – (2/367)
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه.
السعاية – (2/265)
الاصرار علی المندوب یبلغه الی حد الکراهة
واللہ تعالی اعلم بالصواب

 

اپنا تبصرہ بھیجیں