میڈیامیں جاب کرنے اور اس کی تنخواہ کا حکم

سوال: ایک شخص میڈیا میں کام کرتاہے تو اسکی تنخواہ کا کیاحکم ہے اور اگر وہ شخص ہدیہ دے تو کیالے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب:میڈیاکے ایسے تمام شعبے جنکا تعلق براہ راست ناجائز امور پر مشتمل پروگرام بنانے یا ترتیب دینے پر مشتمل ہو تو ان شعبوں میں ملازمت کرناجائز نہیں تاہم میڈیاکے کسی ایسے شعبہ میں ملازمت کرنا جائز ہے جسکا تعلق ناجائز امور پر مشتمل پروگرام ترتیب دینے سے نہ ہوبشرطیکہ تنخواہ اس اکا ؤنٹ ؍فنڈ سے دی جائے جومکمل حلال ہویااسکاغالب حلال ہو۔

لہذا مذکورہ تفصیل کے مطابق اگر آپ کے بھائی کی تنخواہ حلال ہے اور وہ آپ لوگوں کو کوئی چیز بطور ہدیہ دیں ،تو وہ آپ لوگوں کیلئے استعمال کرنا جائز ہے ۔اور اگر آپ کے بھائی کو حرام آمدن سے تنخواہ دی جاتی ہو یا ادارہ کی غالب آمدنی حرام ہو اور اسی غالب آمدنی سے تنخواہ دی جاتی ہو تو وہ رقم جائز نہیں ہے ،اورپھر اگرآپ کے بھائی کی آمدنی صرف وہی حرام رقم ہو یا اس میں حرام رقم غالب ہواور آپ کو اس کا علم ہو تو آپ لوگوں کے لئے بھی اس کا استعمال حلال نہیں ہے ،البتہ اگر وہ کسی جگہ سے حلال لاکر دیں ،تو جائز ہے۔
في قوله تعالي [المائدة : 2]
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
احکام القرآن (۳؍۷۹):
ثم السبب القريب ايضاً علی قسمين:سبب محرک وباعث علی المعيصية بحيث لولاه لما اقدم الفاعل عين هذه المعصية…وسبب ليس کذلک ولکنه يعين لمريد المعصية ويوصله الی مايهواه…فالقسم الاول حرام بنص القرآن،والثانی ان کان بحيث يعمل به من دون احداث صنعة منه يلتحق به يکره تحريما،وان کان يحتاج الی عمل وصنعة يکره تنزيها.
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (8 / 85)
قال: وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلماً يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز لما ذكرنا،
فتاوى قاضيخان – (3 / 244)
قال الناطفي رحمه الله تعالى إذا أهدى الرجل إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب مال المهدي من الحرام ينبغي له أن لا يقبل الهدية ولا يأكل من طعامه ما لم يخبر أنه حلال ورثه أو استقرضه من غيره و إن كان غالب مال المهدي من الحلال لا بأس بأن يقبل الهدية و يأكل ما لم يتبين عنده أنه حرام لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فيعتبر الغالب
احكام المال الحرام – (1 / 34)
الصّورة الرابعة: أنّ المال مركّبٌ من الحلال والحرام، ولايُعرف أنّ الحلال مميَّزٌ من الحرام أو مخلوطٌ غير مميَّز. وإن كان مخلوطاً فكم حصّةُ الحلال فيه. و الأولى فى هذه الصّورة التنزّه، ولكن يجوز للآخذ أن يأخذَ منه بعضَ ماله هبةً أو شراءً، لأنّ الأصل الإباحة. وينبغى أن يُقيّد ذلك بأن يغلب على ظنّ الآخذ أنّ الحلالَ فيه بقدر ما يأخذه أو أكثرُ منه. وهو مَحْمِل ما جاء فى العبارات الآتية:
قال الإمام محمّد رحمه الله تعالى فى كتاب الآثار: “أخبرنا أبوحنيفة، قال: حدثنا محمّد بن قيس أنّ أبا العوجاء العشّارَ كان صديقاً لمسروق، فكان يدعوه، فيأكل من طعامه ويشرَب من شرابه، ولايسأله.” قال محمّد: وبه نأخذ، ولابأس بذلك، مالم يعرف خبيثاً بعينه، وهو قول أبى حنيفة رحمه الله تعالى.
أخرج عبدالرزّاق فى مصنَّفه عن الثّوريّ عن سلمة بن كهيل عن زرّبن عبدالله عن ابن مسعود رضى الله تعالى عنه قال: “جاء إليه رجلٌ، فقال: إنّ لى جاراً يأكل الرّبوا، وإنّه لايزال يدعونى، فقال: مَهْنَأُه لك وإثمُه عليه.” قال سفيان: فإن عرفتَه بعينه، فلاتُصِبه.”

اپنا تبصرہ بھیجیں