محض لوگوں سے تذکرہ کرنے سے کوئی جگہ مسجد کے لیے وقف نہیں ہوتی

سوال: میں نے ایک گودھرا گلستان میں مسجد بنانے کی نیت سے 240 گز کا ایک پلاٹ خریدا ۔ اس جگہ ۳۵ سالوں سے پلاٹوں کی خریداری تو ہورہی ہے۔اب تک وہاں کوئی آبادی نہیں ہوپائی ہے۔میں نے اپنی اس نیت کا ایک دو افراد کو بتایا بھی تھا۔لیکن  بوجہ بالکل آبادی نہ ہونے کے ابھی مسجد بنی نہیں ہے۔

اب مجھ پر کافی قرضہ وغیرہ بھی ہو گیاہے ۔میں چاہ رہا  ہوں کہ یہ جگہ بیچ کر قرضہ اتار دوں ۔میرے کچھ اور بھی پلاٹ ہیں  قرضہ اتار کر پھر کسی زیر تعمیر مسجد میں لگادوں گا یا پھر اللہ نے توفیق دی تو کسی اور جگہ بھی مسجد بنوادوں گا ۔کیا اس صورت میں پلاٹ بیچ سکتا ہوں ۔

تنقیح

  • پلاٹ کے کاغذات مسجد کے نام سے بنوائے ہیں یا رہائشی گھر کے عنوان سے؟
  • پلاٹ پر مسجد کی نیت کرکےکوئی نماز جماعت سے ادا کی گئی ؟

جواب تنقیح

  • پلاٹ کے کاغذات رہائشی گھر کے عنوان سے بنے ہیں ۔
  • خالی پلاٹ پڑا ہے۔کوئی نماز وغیرہ نہیں پڑھی۔

سائل : بلال الیدار

03144774176

الجواب حامدا ومصلیا

مذکورہ صورت میں سائل نےمحض  اپنی نیت کا ایک دو افراد کو بتا کر زبان سے اظہار کیاتھاجبکہ مسجد کی جگہ کا وقف درست ہونے کے لیے صرف نیت یا نیت کا اظہار کافی نہیں بلکہ راجح قول کے مطابق اس جگہ بلند آواز سے اذان اور اقامت کہنے کے بعد ایک نماز جماعت سے  پڑھنا ضروری ہے۔اس کے بغیر مسجد شرعی  نہیں بنے گی۔ لہٰذا سوال میں مذکورہ صورت میں اگرسائل نے صرف نیت ہی کی تھی  مسجد  کی تعمیر بھی شروع نہیں ہوئی  نہ وہاں اس کی اجازت سے اذان واقامت کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی گئی تو یہ جگہ شرعا مسجد نہیں بلکہ سائل ہی کی ملکیت ہے۔سائل اس زمین میں تمام مالکانہ تصرف کرسکتا ہے چاہے تو بیچ بھی سکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)

(ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.

(قوله: ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره……(قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف……(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لا ينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لا يحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم…..(قوله: بجماعة) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف، وتسليم كل شيء بحسبه…..واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد، ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا قال الزيلعي: وهذه الرواية هی الصحيحة وقال في الفتح: ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه وحده صار مسجدا بالاتفاق لأن الأداء على هذا الوجه كالجماعة۔

الفتاوى الهندیة۔كتاب الوقف۔ الباب احادی عشر فی المسجد۔الفصل الاول(2/ 455)

وأما الصلاة فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد – رحمهما الله تعالى -، هكذا في البحر الرائق التسليم في المسجد أن تصلي فيه جماعة بإذنه وعن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة فيه بالجماعة بإذنه اثنان فصاعدا، كما قال محمد – رحمه الله تعالى – رواية الحسن، كذا في فتاوى قاضي خان ويشترط مع ذلك أن تكون الصلاة بأذان وإقامة جهرا لا سرا، حتى لو صلى جماعة بغير أذان وإقامة سرا لا جهرا لا يصير مسجدا عندهما، كذا في المحيط والكفاية.

ولو جعل رجلا واحدا مؤذنا وإماما وأقام وصلى وحده صار مسجدا بالاتفاق، كذا في الكفاية وفتح القدير.وإذا سلم المسجد إلى متول يقوم بمصالحه يجوز وإن لم يصل فيه، وهو الصحيح، كذا في الاختيار شرح المختار وهو الأصح كذا في محيط السرخسي وكذا إذا سلمه إلى القاضي أو نائبه، كذا في البحر الرائق.

فتاوی محمودیہ میں ہے:۱۴/۳۸۸

“جس کی وہ زمین ہے اگر اس نے مسجد بنانےسے پہلے لوگوں کو وہاں اذان ،نماز،جماعت کی اجازت دے دی اور  یہ نیت کرلی کہ یہاں ہمیشہ اذان،نماز،جماعت ہوا کرے گی اور اس کو مسجد قرار دے دیا تو وہ شرعی مسجد بن گئی،۔۔۔۔اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ نیت یہ ہے کہ تعمیر مکمل ہونے کے بعداذان،نماز،جماعت شروع کی جائے گی اور اسی وقت اس کو مسجد قرار دیا جائے گاتو اس پر مسجد کا حکم تکمیل عمارت کے بعد جاری ہوگا”

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:۱۳/۲۷۵

“اس صورت میں اراضی اول جو بغرض تعمیر مسجد خریدی تھی اور اس پر مسجد تعمیر نہیں ہوئی،اور اس کو مشتری نے بعدخریدنے کے وقف نہیں کیا تھا تو وہ اراضی مشتری ہی کی ملک ہے،مشتری مالکانہ اس میں تصرف کرسکتا ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۸رجب ۱۴۴۱ھ

2020مارچ4

اپنا تبصرہ بھیجیں