سوال:1) میزان بینک میں سیونگ اکاونٹ میں بچوں کی پڑھائی کے لیے انویسٹمنٹ کرنا جائز ہے ؟؟
2) انشورنس کمپنی بچوں کی سٹڈی پلان کے مطابق انشورنس کرتی ہے کیا اس میں انویسٹمنٹ کرنا جائز ہے ؟
انویسٹمنٹ کے لیے ذاتی طور پر کچھ کاروبار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان میں کامیابی نہیں ہوئی ہے
اس سلسلے میں آپکی رہنمائی درکار ہے
الجواب باسم ملھم الصواب
1) ہماری معلومات کے مطابق میزان بینک کے تمام معاملات مستند مفتیانِ کرام کی زیرِ نگرانی چل رہے ہیں اور شرعی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ لہذا جب تک یہ بینک مستند مفتیانِ کرام کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے تو اس میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے اور اس پر ملنے والے منافع کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
تاہم بعض اہل علم کو میزان بینک اور دیگر غیر سودی بینکس کے معاملات پر شکوک وشبہات ہیں،اس لیے اگر کوئی ان حضرات کی رائے پر عمل کرتے ہوئے سیونگ اکاؤنٹ نہ کھلوائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
2) انشورنس پالیسیاں سود اور جوئے پر مشتمل ہوتی ہیں،اس لیے ہر طرح کی انشورنس کروانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،البتہ دورِ حاضر میں اہلِ علم نے “تکافل”کو انشورنس کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے،لہذا جو تکافل کمپنیاں مستند مفتیانِ کرام کی نگرانی میں چل رہی ہیں، ان میں تکافل پالیسی لے کر انشورنس والے تمام مقاصد جائز طریقے پر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
یہ تو اصولی جواب ہے تاہم اگر آپ اسٹڈی انشورنس کے طریقہ کار کی مکمل تفصیلات فراہم کر کے دوبارہ سوال پوچھ لیں تو ہم اس کے بعد دوبارہ جواب دیں گے ان شاءاللہ!
================
“«ونهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن قرض جر منفعة» وسماه ربا”
المبسوط للسرخسي14/35 ط:دار المعرفۃ بیروت) (
“وفي الاشباه كل قرض جر نفعا حرام، فكره للمرتهن سكنى الموهونة بإذن الراهن.”
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 430)
(هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال) هذا في الشرع
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي4/85 ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ )
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب
قمری تاریخ: 30 ذی القعدہ،1442ھ
شمسی تاریخ: 11 جولائی،2021