مبیع میں عیب آجانے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب اجناس کے کاروبار سے متعلق ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب تھی کہ بعض اوقات بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان معاملات طے ہوجاتےہیں (یعنی قیمت اور ادائیگی کی مدت )لیکن مال کے اٹھانے سے پہلے(قبضہ سے پہلے )خریدی ہوئ چیز میں(outsold) کوئی خرابی(fault)آجاتاہےاور کبھی مال اٹھانے کےبعد خریدارکو کو ئی عیب نظر آتا ہے  تواس وقت خریدو فروخت کامعاملہ برقرار رہیگایاختم(cancel)شمار ہوگا؟اور خریدنے والے کو کوئی اختیار ہوگایا نہیں ہوگا؟تفصیل سے جواب درکار ہے ۔    

                                                                                                                        سائل:عمران شاہ

                                                            ﷽                                                                   

الجواب حامدا ومصلیا                        

1۔جب خریدنےوالے اور بیچنے والےکے درمیان خریدو فروخت کا معاملہ زبانی طور پر مکمل ہوجائےاور اٹھانے سے پہلے (قبضہ سے پہلے )بیچی ہوئی چیز(out sold) مکمل ہلاک ہو جائے تو اس ایسی صورت میں   خریدو فروخت کا معاملہ فسخ ہو جا ئے گا اور خریدار پررقم کی  ادائیگی لازم نہیں  اگر خریدار نےقیمت ادا کر دی ہے تو اس کو واپس فروخت کنندہ پر کرنا لازم ہوگا۔اور اگر قبضہ سے پہلے  مکمل ہلاک نہیں ہوابلکہ بعض حصہ ہلاک ہوا(quantity)کم ہو گئی یااس کی خوبیوں(Quality) میں سے کسی خوبی میں کمی آگئی تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔

 الف۔ایسی خرابی پیدا ہوگئی کہ جس کے نتیجے میں بالکل اس کی افادیت اور استعمال کرنے کا مقصد  ختم نہیں ہوابلکہ اس میں کوئی کمی ہوگئی ہویعنی(quantity)کم ہوگئی ہو جیسے200بوری چاول خریدااور آگ لگنے سے  یا چوری ہونےسے  اس کی چند بوریوں کو نقصان ہوا  تو اس صورت میں معاملہ ختم نہیں ہوگابلکہ خریدار کے پاس اختیار ہوگاکہ  جتنی بوریوں کو نقصان ہوا ہیں اس کے بقدر طےشدہ قیمت میں سے کم کرلے اور باقی بوریاں لے لےاور چاہےتومعاملے(سودا) کوبالکل ختم کردےاس لیے کہ اب بیچی ہوئی چیز(out sold)اس حالت میں باقی نہیں جس پر خریدی تھی۔

ب۔اگر ایسی خرابی یا نقصان ہواکہ جس کی وجہ سےا س چیز کی کسی خوبی (quality)  میں فرق آگیاہو جیسےچاول خریدا اور آب وہوا کے ناموافق ہونے سےیا کسی اور وجہ سے اس کی پکائی میں فرق آگیاتو اس صورت میں خریدارکواختیار ہے کہ سودا مکمل ختم کردےاور خریدی ہوئی چیز چھوڑدے،اور اگر خریدار سودا باقی رکھناچاہتاہے توطےشدہ پوری قیمت پر لینا ہوگاکوالٹی کی وجہ سے قیمت میں کمی کرنے کا اختیا رنہیں ،البتہ اگرسودا ختم کرکے نیاسودا کم قیمت پر کرناچاہیں توباہمی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہیں  ۔

2۔قبضہ کرنے کے بعدخریدکنندہ اس عیب پر مطلع ہواجو بیچنے والے کی طرف سےآیا تھاتو اس کی تین صورتیں ہیں ۔

1۔خریدارکواختیار ہے کہ اس خریدو فروخت کے معاملہ کو مکمل ختم کردےاور خریدی ہوئی چیز چھوڑدے،اور اگر خریدار سودا باقی رکھناچاہتاہے توطےشدہ پوری قیمت پر لینا ہوگاعیب کی وجہ سے قیمت میں کمی کرنے کا اختیارنہیں ،البتہ اگرسودا ختم کرکے نیاسودا کم قیمت پر کرناچاہیں توباہمی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہیں  ۔

2۔خریدی ہوئی چیز میں خرید کنندہ کی کوتاہی یا غفلت کی وجہ سے ایک اور عیب  آگیاتو اس صورت میں خرید کنندہ صرف سابقہ عیب کے بقدرنقصان کے بقدرفروخت کنندہ سے  لے سکتا ہے اس چیز کو دوبارہ واپس نہیں کرسکتاالبتہ اگربیچنے والااس عیب کے ساتھ واپس لینے پر راضی ہو تو پھر جائز ہے ۔

3۔خرید کنندہ نے اس چیز میں کوئی اضافہ کردیامثلاًکپڑا  خریدااور اس کوسلالیاپھر اس کے بعد بیچنے والے کے کسی عیب پر مطلع ہو اتو اس صورت میں صرف عیب کے  نقصان کے بقدرفروخت کنندہ سے  قیمت لے سکتا ہے اس چیز کو دوبارہ کو نہیں لوٹاسکتا اگرچہ  بیچنے والا راضی ہی کیوں نہ ہوپھربھی ناجائز ہے۔

مجلة الأحكام العدلية (1 / 59):

المادة 293) المبيع إذا هلك في يد البائع قبل أن يقبضه المشتري يكون من مال البائع ولا شيء على المشتري.

الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 36):

وإذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار، إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء رده” لأن مطلق العقد يقتضي وصف السلامة، فعند فوته يتخير كي لا يتضرر بلزوم ما لا يرضى به، “وليس له أن يمسكه ويأخذ النقصان” لأن الأوصاف لا يقابلها شيء من الثمن في مجرد العقد؛ ولأنه لم يرض بزواله عن ملكه بأقل من المسمى فيتضرر به، ودفع الضرر عن المشتري ممكن بالرد بدون تضرره، والمراد عيب كان عند البائع ولم يره المشتري عند البيع ولا عند القبض؛ لأن ذلك رضا به.

الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 33):

قال: “ومن باع عبدا على أنه خباز أو كاتب وكان بخلافه فالمشتري بالخيار إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء ترك”؛ لأن هذا وصف مرغوب فيه فيستحق في العقد بالشرط، ثم فواته يوجب التخيير؛ لأنه ما رضي به دونه، وهذا يرجع إلى اختلاف النوع لقلة التفاوت في لأغراض، فلا يفسد العقد بعدمه بمنزلة وصف الذكورة والأنوثة في الحيوانات وصار كفوات وصف السلامة، وإذا أخذه أخذه بجميع الثمن؛ لأن الأوصاف لا يقابلها شيء من الثمن لكونها تابعة في العقد على ما عرف۔

الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 38):

“وإذا حدث عند المشتري عيب فاطلع على عيب كان عند البائع فله أن يرجع بالنقصان ولا يرد المبيع”؛ لأن في الرد إضرارا بالبائع؛ لأنه خرج عن ملكه سالما، ويعود معيبا فامتنع، ولا بد من دفع الضرر عنه فتعين الرجوع بالنقصان إلا أن يرضى البائع أن يأخذه بعيبه؛ لأنه رضي بالضرر.

قال: “ومن اشترى ثوبا فقطعه فوجد به عيبا رجع بالعيب”؛ لأنه امتنع الرد بالقطع فإنه عيب حادث “فإن قال البائع: أنا أقبله كذلك كان له ذلك”؛ لأن الامتناع لحقه وقد رضي به “فإن باعه المشتري لم يرجع بشيء”؛ لأن الرد غير ممتنع برضا البائع فيصير هو بالبيع حابسا للمبيع فلا يرجع بالنقصان “فإن قطع الثوب وخاطه أو صبغه أحمر، أو لت السويق بسمن ثم اطلع على عيب رجع بنقصانه” لامتناع الرد بسبب الزيادة؛ لأنه لا وجه إلى الفسخ في الأصل بدونها؛ لأنها لا تنفك عنه، ولا وجه إليه معها؛ لأن الزيادة ليست بمبيعة فامتنع أصلا “وليس للبائع أن يأخذه”؛ لأن الامتناع لحق الشرع لا لحقه “…………………………………………………………..

                                      واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

عبدالباسط محمد حنیفعفی عنہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر

دھوراجی کراچی     

26 محرم الحرام 1442

18 ستمبر 2020ز

                           

اپنا تبصرہ بھیجیں