ملٹی لیول مارکیٹنگ میں ری سیلر کے طور پہ کام کرنے کا حکم

السلام علیکم

پاور ایگل کے نام سے ایک کمپنی ہے.جس میں چیزیں سیل کرتے ہیں. اور اس کمپنی میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے. جو 100 سے ذائد ممالک میں کام کرتی ہے.اس میں بطور ری سیلر کام کرنے پہ منافع کا 30% ری سیلرز کو ملتا ہے یعنی ہمیں ..اور اگر ہماری وجہ سے کوئی ری سیلرز اس کمپنی میں کام کرے تو اس سے ہمارا پوائنٹ بڑھتا یے اور ہماری تنخواہ بھی…کیا اس کمپنی میں کام کرنا جائز ہے؟ اور کمپنی میں کام کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کمپنی سے کچھ خریدنا ضروری ہے.

کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ ری سیلرز جو ہماری وجہ سے کمپنی میں شامل ہوتے ہیں انکی وجہ سے جو معاوضہ ملتا ہے وہ گناہ ہے.اگر ایسا ہے تو کیا ری سیلرز بنائے بغیر ہم کمپنی میں کام کرکے اپنا منافہ لے سکتے ہیں؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں…کیونکہ میں یہ کام کرنا چاہتی ہوں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

ہماری معلومات کے مطابق یہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کی شکل ہے، جس کے طریقہ کار کے مطابق بہت سے کمپنیاں کام کر رہی ہیں، شرعی اعتبار سے اس کئی مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ ( مثلا دھوکا،مختلف معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ مشروط کرنے اور دیگر فاسد شرائط)

اس کے ساتھ ساتھ کم قیمت چیزیں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں،اور نئے ممبر بنا کر اس پر کمیشن طے کیا جاتا ہے اور ان ممبران کی خریداری پر بھی منافع دیا جاتا ہے ،جس میں ممبر بنانے والے کی کوئی محنت نہیں ہوتی۔

مذکورہ وجوہات کی وجہ سے اس طرح کسی کمپنی کا ممبر بن کر ممبر سازی کرنا اور مختلف طریقوں سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں،اس سے اجتناب لازم ہے۔

البتہ اگر کمپنی کا بنیادی معاملہ اور کاروبار درست ہو تو اس میں صرف پہلے لیول (یعنی ڈائریکٹ ممبر بنانے) کی کمیشن جائز ہے، اس کے بعد کے لیول کی کمیشن جائز نہیں۔ اور اگر کمپنی کا بنیادی معاملہ یا کاروبار درست نہ ہو تو کسی کو اس میں شامل کرنا بھی جائز نہیں اور اس کی اجرت لینا بھی شرعاً درست نہیں۔

_________

حوالہ جات:

1۔لما فی أحکام القرآن للجصاص

“ولا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار”

( تحت آیۃ سورۃ البقرۃ: 219] 1؍329 ط. دار الکتب العلمیۃ بیروت)

2.وفی مسند أحمد:

“عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: ” نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة”

(ج6 ٬ص324 ٬ط. موسسة الرسالة)

3.وفی بدائع الصنائع:

“ولو کان الخطر من الجانبین جمیعًا ولم یدخلا فیہ محللاً لا یجوز؛ لأنہ في معنی القمار، نحو أن یقول أحدہما لصاحبہ: إن سبقتني فلک عليّ کذا، وإن سبقتک فلي علیک کذا، فقبل الآخر”

(فصل في شروط جواز السابق 8؍350 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

4.وفی الموسوعة الفقهیة:

“وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم”

(39/404، ط. الوزارة)

کذا فی تبویب جامعہ دارالعلوم کراتشی(رقم الفتوی: 31/1115)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

19جنوری2022

15جمادی الثانی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں