متمتع کا مدینے سے واپسی پر حج کا احرام باندھنا 

فتویٰ نمبر:895

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم 

مسئلہ یہ ہے کہ ہم(میں اور میرے شوہر) 5 سال پہلے ہم حج پر گئے تھے تب گھر سے نکلتے وقت حج تمتع کی نیت تھی ۔

مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کر کے احرام کھول دیا ۔ اس کے بعد جب ہم مدینہ میں تھے اور وہاں سے واپس آ رہے تھے تو حج میں صرف 2 دن رہتے تھے تب ہمیں وہاں کسی نے یہ مشورہ دیا

” کہ آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے نکلتے وقت احرام باندھا تھا اور اس کی بہت فضیلت ہے تو آپ بھی یہی کرلیں ۔”

تب ہم نے بھی احرام باندھ لیا اور مکہ آ گئے لیکن ہم نے حج قران کی نیت نہیں کی تھی ۔۔ جب یہاں آئے تب کسی نے یہ کہا ک اب آپ کو تو پہلے سعی کرنی ہے تب ہم نے وہاں کسی مفتی صاحب سے پوچھ کر 6 یا 7 ذی الحج کو ہی حج کی  سعی کر لی اور نفلی طواف بھی کیے اس کے بعد حج کے سارے ارکان ادا کیے اور طواف زیارت کے بعد سعی نہیں کی ۔۔

اب 5 سال بعد  ہم ابھی حج پر آئے ہوئے ہیں ۔ تو یہ مسئلہ سنا کہ جب  گھر سے نکلتے وقت حج تمتع کی نیت تھی تو پھر حج قران نہیں کر سکتے ۔۔ اگر ایسا کیا تو ایک دم دینا ہوگا ۔ 

اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو سورت اوپر بیان کی گئی ہے اس میں کیا ہمیں دم دینا ہوگا ۔۔اور ہم دونوں کا علیحدہ دم ہو گا 

واضح رہے کہ ہم نے حج قران کی نیت نہیں کی تھی لیکن ہم نے سعی پہلے کر لی جو کہ حج قران میں کی جاتی ہے۔

تنقیح ۔

مدینے میں حج وعمرہ میں سے کس کا احرام باندھا تھا۔

مکہ آنے کے بعد عمرہ مکمل کیا تھا ؟۔

سعی عمرے کے بعد کی تھی یا حج کی سعی کی تھی ؟

جواب تنقیح ۔مدینے میں حج کا احرام باندھا تھا ۔مدینے سے مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ نہیں کیا تھا حج کی سعی کی تھی۔

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

وعلیکم السلام ورحمة اللہ !

جواب سے پہلے بطور تمہید یہ مسئلہ سمجھ لیں کہ آفاقی یعنی میقات سے باہر کے خطوں کا رہنے والا متمتع (حج تمتع کرنے والا ) اگر اشہر حج میں عمرہ کرکے حلال ہونے کے بعد حج سے پہلے مدینہ منورہ چلا جائے اور پھر مکہ آکر مناسک ادا کرنا چاہے تو اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین درمیان اختلاف ہے: 

١ـ امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے نزدیک اس صورت میں اگر متمتع مدینے سے واپسی پر حج کا احرام باندھ لے تو اس کا تمتع درست ہوجائےگا ، کیونکہ آفاقی اگر اپنے اہل وعیال کے سوا میقات سے باہر کسی مقام پر نکلتا ہے تو امام کے نزدیک اس کا پہلا سفر ختم نہیں ہوتا، بلکہ برقرار رہتا ہے، لہذا جب سفر برقرار رہتا ہے تو تمتع بھی باطل نہیں ہوتا اس لیے واپسی میں حج کااحرام باندھنے سے تمتع درست ہوجاتاہے؛ البتہ حکما مکی ہونے کی وجہ سے اس کے لیے قران کا احرام باندھنا درست نہیں اگر باندھے گا تو دم واجب ہوجائے گا اور اس صورت میں اگر یہ شخص صرف عمرے کا احرام باندھ کر آئے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کرکے حلال ہوجائے پھر ایام حج میں حج کا احرام باندھ کر حج کرلے تو اس صورت میں بھی امام کے نزدیک اس کا تمتع صحیح ہوجائے گا لیکن تمتع کا انعقاد پہلے عمرے سے ہوگا دوسرے سے نہیں (وہ نفلی طواف شمار ہوگا ) ـ 

٢ ـ جبکہ صاحبین کے نزدیک پہلا عمرہ مفرد ہوگا اور تمتع دوسرے عمرے سے منعقد ہوجائےگا کیونکہ میقات سے باہر نکلتے ہی اس کاپہلا سفر ختم ہوکردوسرا سفر شروع ہوجائےگا اور تمتع بھی باطل ہوجائے گا البتہ جب وہ عمرے کا احرام باندھ کر مکہ واپس آکر دوسرا عمرہ کرے گا اور پھر اسی سال حج کرے گا تو اس کا تمتع از سر نو منعقد ہوجائے گا اور صاحبین کے نزدیک اگر وہ قران کا احرام باندھ کر قران کرے تو یہ بھی درست ہوگا ؛ اگرچہ فتوی امام صاحب کے قول پر( کہ واپسی پر حج کا احرام باندھے اور عمرے کا احرام باندھنے کی بھی گنجائش ہے) ہے مگر اختلاف سے بچنے کے لیے مدینے جانے والے آفاقی کے لیے بہتر یہی ہے کہ مدینے سے واپسی میں حج کا احرام نہ باندھے بلکہ عمرے کا احرام باندھ کر آیا کرے تاکہ بالاتفاق تمتع درست ہوجائے البتہ فتوی امام ابوحنیفہ کے قول پر ہے اس لیے حج کا احرام باندھنے سے بھی تمتع درست ہوجائے گا۔ 

اب آپ اپنے سوالوں کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ کرلیں:

جو صورت آپ نے ذکر کی ہے وہ امام ابو حنیفہ کے مفتی بہ قول کے مطابق حج تمتع کی ہے اور آپ کا حج تمتع ہی ادا ہوا ہے حج قران نہیں ، آپ پر کوئی دم واجب نہیں ؛ البتہ حج تمتع میں طواف زیارت کے بعد سعی افضل ہے جبکہ پہلے بھی کرنا جائز ہے (جوآپ نے کی ہے ) اور قارن کے لیے طواف قدوم کے بعد سعی افضل ہے جبکہ طواف زیارت کے بعد سعی جائز ہے ؛ لہذا آپ نے جو حج کی سعی پہلے کرلی اس سے حج تمتع میں کوئی فرق نہیں پڑا ، یہ الگ بات ہے کہ حج کے بعد کرنا افضل تھا ۔

⚜لان الاصل عندہ ان الخروج فی اشہر الحج الی غیر اھلہ فالاقامة بمکة فکانہ لم یخرج وقرن من مکة واما عندھما کالرجوع الی اھلہ فاذا خرج بطل تمتعہ الخ ۔ (غنیہ جدید ٢١٥ قدیم ١١٤ ) 

ولوعاد بعد ما حل من عمرتہ الی غیر اھلہ فی موضعٍ لاھلہ التمتعُ والقرانُ وحج من عامہ ذلک کان متمتعا عند ابی حنیفة وصار کانہ لم یخرج من مکة وعندھما لا یکون متمتعا ویکون لحوقہ بھذا الموضع کلحوقہ باھلہ الخ ۔(الجوھرة ٢٠٦ ، غنیة جدید ٣١٣) 

اما اذا رجع الی غیر بلدہ کان متمتعا عند ابی حنیفة ویکون کانہ لم یخرج من مکة وعندھما لا یکون متمتعا فیکون کانہ رجع الی بلدہ فلافرق عندھما بین ان ینوی الاقامة فی غیر بلدہ خمسةعشر یوما او لم ینو ـ الجوھرة ٢٠٥)

(مستفاد من زبدة المناسک ٢\١٥، عمدة الفقہ٢٨٦ ، کتاب الحج ، انوار المناسک ٣١١)

و اللہ سبحانہ اعلم

بقلم :بنت عبد الباطن عفی عنھا 

قمری تاریخ: ١٩ اگست ٢٠١٨

عیسوی تاریخ:٨ذی الحجہ ١٤٣٩

تصحیح وتصویب:

1۔ مفتی انس عبد الرحیم

2۔ مفتی عمران احمد آبادی 

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں