مضاربت

اسلام علیکم ورحمۃاللہ 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں مرسلین اور یوسف نے  مل کر ایک بزنس شروع کرنے  کے ارادہ سے ایک جگہ کرائے پر لی اور ابھی بزنس شروع نہ کر پائے تھے کہ معلوم ہوا اس میں سود کا شائبہ ہے جسے سود کی وجہ سے بند کر دیا گیا ،جس بزنس میں کل سرمایہ مرسلین کا تھا اور محنت یوسف کی اور نفع برابر ہوگا طے کیا گیا اور نقصان کے بارے میں کوئی بات طے نہ کی گئی ، پھر کچھ عرصہ بعد دونوں نے پرانے طریقہ پر (مرسلین کا سرمایہ یوسف کی محنت نفع  برابر نقصان کے بارے میں کوئی بات نہیں)دوسرا بزنس شروع کیا جس کے بارے میں دونوں نا واقف اور ایک (علی شاہ)  نامی بندہ کو   ٪20 کے نفع پر شریک کیا گیا اور  اس سے بھی نقصان کی کوئی بات طے نہ کی گئی  (اس نیو بزنس کی تمام معلومات علی شاہ  ہی کو  تھی) کام چلنے کے کچھ عرصے قریبا  ایک چوتھائی نقصان سامنے نظر آنے لگا تو یوسف نے مرسلین کو آگاہ کیا  علی شاہ کو معلومات ہونے کے باوجود نقصان ہو رہا ہے تو علی شاہ کو فارغ کر دیا جائے تاکہ اوپر نقصان نہ ہو اس آگاہی کے باوجود مرسلین نے علی شاہ سے مشاورت کر کے اور پیسے لگائے جس پر یوسف راضی نہ تھا (اس پر گواہ موجود ہے کہ یوسف مرسلین کے پیسے لگانے پر راضی نہیں ہے پھر بھی  مرسلین نے پیسے لگائے ہیں ) پیسے لگانے کے بعد بزنس میں اور بڑا بھاری نقصان ہوا اس نقصان کے پیش نظر علی شاہ بھی کام چھوڑ کر چلا گیا  اس کے بعد بھی قریبا دو ماہ بزنس چلا گیا جس میں نقصان ہی ہوتا رہا ، پھر مرسلین نے یوسف سے سوال کیا کہ اور پیسے لگانے پر کیا رائے ہے نفع ہوگا یا نقصان ہوگا؟ جوابا یوسف نے کھا کہ یقینی طور پر  کہنا مشکل ہے نفع ہوگا یا نقصان  اس  جواب پر مرسلین نے یوسف کو اسی مقام پر بزنس بند کرنے کا کہا اور نقصان برابر تقسیم ہونے کا کہا۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ نقصان کا ضامن کون ہوگا ؟مرسلین نے بغیر یوسف کی رضامندی کے علی شاہ کے کہنے پر جو پیسے لگانے کا فیصلہ کیا  کہ جس صورت بھاری نقصان ہوا،اس فیصلہ کا کیا حکم ہے ؟ اس صورت میں نقصان کا ضامن کون کون ہوگا ؟کتنا کتنا نقصان آئے گا ذمہ میں ؟

الجواب حامدا ومصلیا

تجارت کی مذکورہ صورت شرعا مضاربت ہے  جس میں یوسف مضارب اور مرسلین رب المال ہے اور عقد مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں اصول یہ ہے کہ  اگر نقصان مضارب (کام کرنے والے) کی غفلت اور کوتاہی یا لاپرواہی کی وجہ سے ہوا ہو تو سارا نقصان وہ برداشت کریگا 

لیکن اگر مضارب کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے نقصان نہیں ہوا تو  جب سے عقد مضاربت طے ہوااس وقت سے  عقد کو ختم کرنے تک جتنا نفع ہوا اولا نقصان کی تلافی نفع میں سے کی جائے  گی اور اگر نفع ہوا ہی نہ ہو یا نقصان نفع سے زیادہ ہو تو نفع کے بعد  بقیہ نقصان کی تلافی  اصل سرمایہ سے کی جائے  گی اور مضارب کو  اس نقصان کا حصہ  ادا نہیں  کرنا پڑےگا اسکی صرف محنت رائیگاں  جائے گی۔

مذکورہ اصول کے مطابق  سب سے پہلے نقصان کی تلافی نفع میں سے کی جائے گی اور اگر نقصان نفع سے  زیادہ ہو تو  نفع کے بعد بقیہ نقصان کی تلافی  اصل سرمایہ سے   (جو کہ مرسلین کا ہے) کی جائے گی  اور مضارب (یوسف) کو نقصان کا ضامن نہیں ٹھہرایاجائےگا یوسف کی صرف محنت رائیگاں  جائےگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 648)

“كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد (قوله بطل الشرط) كشرط الخسران على المضارب”

فتاوی عثمانی۳/۵۳

“اگر کام کرنے والا صرف محنت کر رہا ہے اس کا کوئی سرمایہ شامل نہیں ہے، تو اس صورت میں نقصان کی کوئی ذمہ داری اس پر ڈالنا شرعا جائز نہیں، معاملہ کی صحت کے لئے یہ ضروری ہے کہ نفع کا کوئی فیصد حصہ دونوں کے لئے متعین کیا جائے، اور یہ طے کیا جائے کہ نقصان کی صورت میں تمام نقصان سرمایہ لگانے والے کا ہوگا”     

واللہ اعلم بالصواب

حررہ العبد حنظلہ عمیر غفر لہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۸/۶/۱۴۴۱ھ

ء2020/2/2

مفتی انس  صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

مولانا عثمان صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

اپنا تبصرہ بھیجیں