نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بطور ماہرِ نفسیات

انیسواں سبق

“نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بطور ماہرِ نفسیات”

تخلیقی لحاظ سے انسان قدرت کا مکمل شاہکار ہے-

اس میں سوچنے سمجھنے فیصلہ کرنے اور اپنے گردوپیش سےتاثر حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے- اگر انسان اچھے ماحول میں تربیت پاتا ہے تو اچھے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے-

اگر برے یا غلط ماحول میں تربیت پاتا ہے اور اچھی سرپرستی میسر نہ ہو٫ محبت نہ ملے یا بے سہارا چھوڑ دیا جائے تو اپنے نا پختہ ذہن سے درست فیصلے نہیں کر پاتا بلکہ بے راہ روی اور جرائم کا مرتکب ہوتا ہے-

ایسے کرداروں کو بہت سے نفسیاتی مسائل کا سامنا درپیش رہتا ہے-

ہمارے آس پاس کے مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ ان سے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا ممکن نہیں ہے- بلکہ خاموشی اِختیار کرنے والا خود ان جرائم کی بالواسطہ مدد کرتا ہے-

“علم نفسیات” نے چند ایسی انسانی خصلتوں کی نشاندہی کی ہیں جو انسانی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں اور مستقبل میں ذہنی خرابیوں اور”نفسیاتی امراض کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتی ہیں-

مثلاً بغض٫حسد٫ کینہ٫ غصہ٫احساس کمتری٫ غیبت٫بہتان تراشی٫ خوف و ڈر٫احساس گناہ اور جاسوسی وغیر- دین اسلام نے جہاں ان خرابیوں کی نشاندہی کی ہے وہاں ان کا حل بھی بتایا ہے-

“نفسیاتی مسائل اور ان کا حل”

آئیے ہم سب سے بڑے اور عظیم “ماہر نفسیات” “پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کے “ارشادات” سے روز مرہ کے “نفسیاتی مسائل” کا سرسری جائزہ لے کر ان سے نجات پانے کا “قابلِ عمل نسخہ تلاش کرتے ہیں-

“ڈر اور خوف”

انسان کی بنیادی جبلتوں میں ڈر٫خوف٫غم اور خوشی اہمیت رکھتے ہیں-

کسی خطرے کے وقت اس کا ردعمل فکر٫ دہشت٫ گھبراہٹ٫اور پریشانی وغیرہ کی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے-“علم طب میں اسے شوک(Shok) کہتے ہیں اور اردو میں صدمہ-ان حالات میں جسم شدید رد عمل کا شکار ہوتا ہے- ایسے امراض کا علاج “پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے یوں مرحمت فرمایا ہے-

1-“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا “انت الرفیق ٫واللہ الطبیب”تمہارا کام مریض کو اطمینان دلانا ہے اور “اللّٰہ تعالٰی” علاج خود کرے گا-

اس حدیث میں” معالج” کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ “مرض” میں دلچسپی لینے کے بجائے “مریض” کو تسلی دے تاکہ اس کے دل سے دہشت دور ہو-

2-“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” سے اس بارے میں ایک دلچسپ روایت ملتی ہے-

“جب خاندان میں فوتگی ہو جاتی تھی تو تعزیت کیلئے آنے والی عورتوں کے جانے کے بعد” گھر کی خواتین”غمزدہ خاندان کے لئے”تلبینہ”(جو کا دلیہ) تیار کرنے کا حکم دیتیں- “آپ رضی اللّٰہ عنہا”کہا کرتیں میں نے”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے سنا ہے” تلبینہ”دل کے امراض کا مکمل علاج ہے- یہ دل سے (ہر قسم کے) صدمے/غم کو اتار دیتا ہے-

(بخاری٫ ترمذی٫نسائ)

3-“ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “الا ان اولیاء اللہ٫لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون”

“خوب جان لو کہ جو ہمارے دوست ہیں٫نا ان کو کوئ خوف ہوگا اور نا وہ غمگین ہونگے-( سورہ یونس-62)

اس آیت میں ایمان والوں کے ایمان کی مظبوطی “اللّٰہ تعالٰی” کی محبت٫ اور اس سے تعلق جوڑنے کو خوف اور غم دور کرنے کا علاج بتایا گیا ہے-

4-“ذکر اور دعا” بھی ڈر اور خوف کو ختم کرتے ہیں-“اللّٰہ رب العزت” کا ارشاد ہے”الا بذکر اللہ تطمئن القوب” یعنی:دلوں کا سکون”اللّٰہ تعالٰی” کے ذکر میں ہے-

“ذکر اللہ” روح کی غذا ہے-اسی لئے” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” نے “امت” کو ہر موقع کے “اذکار اور دعاؤں” کی تعلیم دی ہے-اس پر چھوٹی بڑی ہر طرح کی کتابیں موجود ہیں-ان کتابوں کو اپنے مطالعے میں رکھیں- ان کو اپنی زندگی میں لانے سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے-خوف و ہراس کی کیفیت میں افاقہ محسوس ہوتا ہے-

“احساس کمتری”

“نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ہر مسلمان کو ذاتی وقار عطاء فرماتے ہوئے”انسانی حقوق” کے سب سے بڑے “چارٹر”خطبہء حجہ الوداع” میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ” کسی “عربی کو عجمی” پر اور “کسی” عجمی کو عربی” پر کوئ برتری نہیں ہے- برتری صرف” تقوی” سے ہے-اور یہ یاد رکھو کہ تم سب” حضرت آدم علیہ السلام” کی اولاد ہو٫جبکہ آدم ” مٹی سے بنے ہیں-

گویا”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ہر مسلمان کو اچھے کاموں٫نیکی ٫اسکے حسن اخلاق اور دوسروں کی خدمت کی بناء پر برتری کا مستحق قرار دیا ہے- ہر شخص کو حوصلہ دیا گیا ہے کہ” اپنی” “غلطیوں” کو مانیں اور “دوسروں” کے اچھے کاموں کی” حوصلہ افزائی” کریں- تاکہ “احساسِ کمتری” میں مبتلا ہونے کا کوئ جواز باقی نہ رہے-

” کج لباسی”

“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”دین اسلام” سکھانے میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے ایک لمبی اور” صحتمند زندگی” کا مقصد بھی سامنے رکھا ہے- “حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہے”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ہر اس “مسلمان مرد” پر لعنت فرمائی جو”عورتوں کا سا لباس” پہنیں- اور ہر اس” مسلمان عورت” پر لعنت فرمائی جو”مردوں کا سا” لباس پہنیں-( ابو داؤد)

“1935ء میں جرمنی کے “ڈاکٹروں” نے ایک “عجیب وغریب” بیماری کا پتہ لگایا٫جسے انہوں نے “کج لباسی” کا نام دیا-اس بیماری کی” واضح علامت” یہ تھی کہ “مردوں” کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ وہ “زنانہ لباس” پہنیں اور عورتوں کی طرح” زیب وزینت کریں- اور”عورتوں” کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ وہ” مردانہ لباس” پہنیں- اس کیفیت کو باقاعدہ” نفسیاتی بیماری” قرار دیاگیا-

“میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے آج سے “1400”سال پہلے ہی اس برائی کو ابتدائی حالت میں روکنے کی ترکیب کرتے ہوئے”عورتوں اور مردوں” کو ایک دوسرے کے اطوار اپنانے سے روکا ہے-( سبحان اللّٰہ)

“احساس گناہ”

“احساس گناہ” ایک جذباتی کیفیت ہے جو ان کاموں کے کرنے سے ہوتا ہے جن کو” ہمارا مذہب” اور “رسم و رواج” غلط قرار دیتے ہیں-“احساس گناہ” سے یہ بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں-“بے خوابی٫ اختلاج٫ہسٹیریا کے دورے٫ سردرد٫ گھبراہٹ ٫اضطراب٫ اپنی ذات پر سے اعتماد کھو دینا٫خود کو سزا دینے کی خواہش”-

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” احساس گناہ” سے نجات کا نسخہ”قرآن و حدیث” سے متعدد جگہ بتایا ہے٫جس سے گناہگاروں کو” احساسِ گناہ”سے نجات مل سکتی ہے-وہ نسخہ ہے”توبتہ النصوح” یعنی سچی اور پکی توبہ-“توبہ اور معافی کے ضمن میں” قرآن کریم” میں”87″آیات موجود ہیں-“ارشادِ باری تعالیٰ” ہے “جس نے اپنی زیادتیوں کے بعد گناہوں سے توبہ کی اور اپنی اصلاح کر لی “اللّٰہ” اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے”-(المائدہ:39)

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا ہے کہ”اللّٰہ تعالٰی” اپنے بندوں کی توبہ اس وقت تک قبول کر لیتا ہے جب تک اس کی” سانس کی غرغراہٹ” موجود ہو ( ترمذی-ابن ماجہ)

“اسلام” نے نفسیاتی دباؤ سے نکلنے کے لئے نا صرف توبہ کا طریقہ بتایا ہے بلکہ یہ گارنٹی بھی دی ہے کہ توبہ کرنے کے بعد”انسان” گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے کہ جیسے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو-

“ارشادِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہے:”التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ” (مشکوہ)

“ترجمہ: گناہوں سے توبہ کرنے والا بالکل ایسا ہے جیسا کہ اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو-

ایک اور”حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہے “ہر آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کر لے-

“خواب”

“خواب” انسانی نفسیات کا حصہ ہیں-انسان جب سوتا ہے تو”اللّٰہ تعالٰی” کے بنائے ہوئے نظام کے تحت اس کے دل پر خیالات جاری رہتے ہیں٫پھر وہی خیالات” خواب” کی صورت نظر آتے ہیں- ماہرین کے مطابق “8”گھنٹے کی نیند میں “ڈیڑھ گھنٹہ” خوابوں” کا ہوتا ہے-کچھ خواب”ذہنی پریشانی٫پراگندہ خیالی٫یا پیٹ کی خرابی کا شاخسانہ ہوتے ہیں-

“ذہنی پریشانی” کے موقع پرجب انسان دن بھر “ذہنی دباؤ” میں ہو تو نیند میں بھی برے خیالات “خواب “کی صورت میں نظر آتے ہیں- یا ” انسان “دن بھر جو “خواب و ارمان” دل میں بسائے رکھتا ہے تو سوتے ہوئے وہی” ارمان” اسے سپنے کی صورت میں نظر آتے ہیں اور خوش کرتے ہیں-

“انسان” کا معدہ زیادہ بھرا ہوا ہو تو ایسے مواقع پر بھی “فضول خواب” آتے ہیں-

“پریشان خواب٫ ڈراؤنے خواب٫اور جنسی خواب” انسان “کو پریشان کر دیتے ہیں-

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے خوابوں کی اقسام اور ان کی تعبیرات بھی بتائ ہیں-

“سچے خوابوں” کو نبوت” کا “46”واں حصہ”قرار دیا ہے-جبکہ”ڈراؤنے خوابوں” اور”غسل واجب کرانے والے خوابوں کو”شیطانی خواب قرار دیا-

“ڈراؤنے خوابوں کا حل”

اگر ایک آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے” برا خواب” دیکھا ہے تو اسے چاہئے کہ اسےکسی کے سامنے بیان نہ کرے-بلکہ جیسے ہی آنکھ کھلے” بائیں(الٹی) طرف”3″مرتبہ”اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم” پڑھ کر تھتھکار دے” اور کروٹ بدل “کر سو جائے-ایسا کرنے سے”صاحب خواب” اس خواب کے” شر” سے محفوظ رہے گا-(مشکوہ)

“خواب “کبھی بھی” دشمن” سے بیان نہ کریں٫ہمیشہ ایسے “خیرخواہ” سے بیان کریں جو اس کا “ماہر” ہو-

“حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ہے کہ جو شخص “رات کو سوتے وقت”سورہ بقرہ” کی آخری دو آیات”آمن الرسول” سے”فانصرنا علی القوم الکافرین” تک پڑھ لے وہ ہر قسم کے شر سے محفوظ رہے گا”ان شاءاللہ”

اسی طرح روانہ سونے سے پہلے” تسبیحات فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا”(33-33 مرتبہ “سبحان اللّٰہ”الحمدللہ” اور “34” مرتبہ”اللّٰہ اکبر”) پڑھے” پھر”سورہ اخلاص٫ معوذتین٫اور آیت الکرسی”پڑھ کر” دونوں ہاتھوں” پر دم کر کے “پورے جسم” میں جہاں تک ہاتھ پہنچیں پھیر لیں”اور “داہنی کروٹ” پر “سونے کی دعا” پڑھ کر سو جائیں “ان شاءاللہ” ڈراؤنے خوابوں اور ہر شر سے حفاظت رہے گی-

(ختم شد”19واں سبق)

حوالہ:سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-

مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

4-2-22ھفتہ”3″رجب 1443ھ”-

اپنا تبصرہ بھیجیں