نماز جنازہ سے متعلق اہم ترین مسائل قسط 3

نماز جنازہ سے متعلق اہم ترین مسائل قسط 3

مفسداتِ نمازِجنازہ

جنازہ کی نماز بھی ان چیزوں سے فاسد ہوجاتی ہے جن چیزوں سے دوسری نمازیں فاسد ہوتی ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ جنازہ کی نماز میں قہقہہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ نمازِ جنازہ ٹوٹ جاتی ہے اور عورت کی محاذات (برابر میں کھڑے ہونے)سے بھی اس میں فساد نہیں آتا۔

مسجد میں نمازِ جنازہ

جنازے کی نماز اس مسجد میں پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے جو پنج وقتی نمازوں یا جمعہ وعیدین کی نماز کے لیے بنائی گئی ہو، چاہے جنازہ مسجد کے اندر ہو یا مسجد سے باہر ہو اور نماز پڑھنے والے اندر ہوں،البتہ جو خاص جنازہ کی نماز کے لیے بنائی گئی ہو اس میں مکروہ نہیں۔

عید گاہ میں فقہا کے دو قول ہیں: بعض اسے مسجد کے حکم میں کہتے ہیں اور بعض نہیں۔ جو مسجد کے حکم میں نہیں مانتے وہ عیدگاہ میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو جائز کہتے ہیں۔راجح یہ ہے کہ عیدگاہ تمام احکام میں مسجد کی طرح نہیں، اس لیے عید گاہ میں نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے۔

عام حالت میں مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے یا تحریمی، دونوں قول ہیں، زیادہ صحیح یہ ہے کہ مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ بارش وغیرہ کوئی عذر ہو تو مکروہِ تنزیہی بھی نہیں بلکہ بلاکراہت جائز ہے۔

ایک وقت میں ایک سے زائد جنازے

اگر ایک ہی وقت میں کئی جنازے جمع ہوجائیں تو بہتر یہ ہے کہ ہر میت کی نماز علیحدہ پڑھی جائے اور اگر سب کی ایک ہی نماز پڑھی جائے تو بھی جائز ہے اور اس وقت چاہیے کہ سب جنازوں کی صف قائم کردی جائے، جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک جنازے کے آگے دوسرا جنازہ اس طرح رکھ دیا جائے کہ سب کے پیر ایک طرف ہوں اور سب کے سر ایک طرف اور یہ صورت اس لیے بہتر ہے کہ اس میں سب کا سینہ امام کے مقابل ہوجائے گا جو مسنون ہے۔

اگر جنازے مختلف قسموں کے ہوں تو اس ترتیب سے ان کی صف قائم کی جائے کہ امام کے قریب مردوں کے جنازے، ان کے بعد لڑکوں کے، ان کے بعد بالغ عورتوں کے اور ان کے بعد نابالغ لڑکیوں کے۔

نمازِ جنازہ میں امامت کا زیاہ حقدار

جنازے کی نماز میں امامت کا استحقاق سب سے زیادہ مسلمانوں کے امیر کو ہے،اگر چہ تقویٰ اورپرہیز گاری میں اس سے بہتر لوگ بھی وہاں موجود ہوں۔ اگر امیرِ وقت وہاں نہ ہو تو اس کا نائب یعنی جو شخص اس کی طرف سے شہر کا حاکم ہو، وہ امامت کا مستحق ہے،اگر چہ تقویٰ اورپرہیز گاری میں اس سے بہتر لوگ بھی وہاں موجود ہوں۔ وہ بھی نہ ہو تو شہر کا قاضی، وہ بھی نہ ہو تو اس کا نائب، ان لوگوں کے ہوتے ہوئے دوسرے کوامام بنانا بغیر ان کی اجازت کے جائز نہیں، ان ہی کو امام بنانا واجب ہے۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی وہاں موجود نہ ہو تو اس محلہ کے امام کا حق ہے، بشرطیکہ میت کے رشتہ داروں میں کوئی شخص اس سے افضل نہ ہو، ورنہ میت کے وہ رشتہ دار جن کو حق ولایت حاصل ہے امامت کے حق دار ہیں یا وہ شخص جس کو وہ اجازت دے دیں۔

ایک میت پر ایک سے زائد مرتبہ نماز پڑھنے کا حکم

اگرمیت کے ولی کی اجازت کے بغیر کسی ایسے شخص نے نماز پڑھادی جس کو امامت کا حق نہیں تو ولی کو اختیار ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے حتیٰ کہ اگر میت دفن ہوچکی ہو تو اس کی قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے جب تک لاش کے پھٹ جانے کا خیال نہ ہو۔

اگر میت کے ولی کی اجازت کے بغیر کسی ایسے شخص نے نماز پڑھادی جس کو امامت کا استحقاق ہے تو میت کا ولی نماز کا اعادہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر میت کے ولی نے بادشاہِ وقت وغیرہ کے موجود نہ ہونے کی حالت میں نماز پڑھادی تو بادشاہ ِوقت وغیرہ کو اعادہ کا اختیار نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ اگر میت کے ولی نے بادشاہِ وقت کے موجود ہونے کی حالت میں نماز پڑھ لی تب بھی بادشاہِ وقت وغیرہ کو اعادہ کا اختیار نہ ہوگا، اگر چہ ایسی حالت میں بادشاہ ِوقت کے امام نہ بنانے سے واجب چھوڑنے کا گناہ میت کے اولیاء پر ہوگا۔ حاصل یہ ہے کہ جنازہ کی نماز کئی مرتبہ پڑھنا جائز نہیں مگر میت کے ولی کے لیے، جبکہ اس کی اجازت کے بغیر کسی غیر مستحق نے پڑھادی ہو، دوبارہ پڑھنا درست ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں