نماز میں پائنچے فولڈ کرکے نماز پڑھنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

مجھے ایک مسئلے کے متعلق تفصیلاً راہنمائی چاہیے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب میری شادی ہوئی تو میرے شوہر ٹخنوں سے پینٹ اوپر نہیں رکھتے تھے ، میرے توجہ دلانے پر وہ پینٹ کو ،بالخصوص نماز کے دوران فولڈ کرنے لگ گئے ۔لیکن جس مسجد میں وہ نماز پڑھتے ہیں (ٖوہ اہل سنت کی مسجد ہے) اس کے امام نماز شروع کروانے سے پہلے ہمیشہ پینٹ کی فولڈنگ کھولنے کا کہتے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک ”ٹخنے کھولنا ضروری تو ہیں لیکن اگر پینٹ کو فولڈ کرکے کھولے جارہے ہیں تو یہ عمل جائز نہیں بلکہ ٹخنے چھپا لیں ،لیکن فولڈ نہ کریں ۔ فولڈ کر کے جو نماز پڑھی وہ مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے “

مسجد کے ایک ساتھی نے پھر میرے شوہر کو ایک فتویٰ بھی بھیجا ،جس میں یہی حکم موجود ہے ۔

]فتوے میں موجود چند دلائل یہ ہیں:

احکامِ شریعت کے شارح و شارِع علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز میں کپڑا فولڈ کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:’’أمرت أن أسجد على سبعة، لا اکف شعرا ولا ثوبا۔‘‘ترجمہ:مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور اپنے بالوں اورکپڑوں کو نہ لپیٹوں۔(صحیح البخاری، جلد1، باب لایکف ثوبہ فی الصلاۃ، صفحہ 163، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:956ھ/1049ء) لکھتےہیں:’’يكره أن يكف ثوبه وهو في الصلاة أو يدخل فيها وهو مكفوف كما إذا دخل وهو مشمر الكم أو الذيل۔‘‘ ترجمہ:حالتِ نماز میں نمازی کو کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے، یونہی اگر وہ نماز شروع ہی اِس انداز میں کرے کہ اُس نے کپڑا فولڈ کیا ہوا ہو، جیسا کہ جب کوئی یوں نماز شروع کرے کہ اُس کی آستین یا دامن چڑھا ہوا ہو۔

(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، فصل فیما یکرہ فعلہ فی الصلاۃ، صفحہ 348، مطبوعہ لاھور)

علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ: کپڑے کو لپیٹنا مکروہِ (تحریمی) ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد2، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، صفحہ490، مطبوعہ کوئٹہ)

اِس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’حرر الخير الرملي ما يفيد أن الكراهة فيه تحريمية۔‘‘ترجمہ:جو علامہ خیر الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر کیا ہےوہ اِس فعل کے مکروہِ تحریمی ہونے کو ثابت کرتاہے۔ (ردالمحتار مع درمختار ، جلد2، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، صفحہ490، مطبوعہ کوئٹہ)

امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے ”کفِ ثوب“ کی ایک صورت یعنی آستینوں کو نصف کلائیوں سے اوپر تک فولڈ کر کے نماز پڑھنے کے متعلق سوال ہوا ،تو آپ نے جواباً لکھا:’’ضرور مکروہ ہے اور سخت وشدیدمکروہ ہے۔ تمام متونِ مذہب میں ہے:’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ:کپڑوں کو لپیٹنا مکروہ ہے۔ لہذا لازم ہے کہ آستینیں اتار کرنماز میں داخل ہو، اگرچہ رَکعت جاتی رہے اور اگرآستین چڑھی نمازپڑھے، تو اعادہ کی جائے۔ کما ھو حکم صلاۃ ادیت مع الکراھۃ کمافی الدر وغیرہ ۔ترجمہ:جیسا کہ ہراس نماز کاحکم ہے جوکراہت کے ساتھ اداکی گئی ہو۔ جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے۔‘‘ملتقطاً

(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ309،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

خلیلِ ملت ، مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1405ھ/1985ء)لکھتے ہیں :’’شلوار کو اوپر اُڑس لینا یا اس کے پائنچہ کو نیچے سے لوٹ لینا، یہ دونوں صورتیں کفِ ثوب یعنی کپڑا سمیٹنے میں داخِل ہیں اور کف ثوب یعنی کپڑا سمیٹنا مکروہ اور نماز اِس حالت میں ادا کرنا، مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ کہ دہرانا واجب، جبکہ اِسی حالت میں پڑھ لی ہو اور اصل اِس باب میں کپڑے کا خلافِ معتاد استعمال ہے، یعنی اس کپڑے کے استعمال کا جو طریقہ ہے ، اس کے برخلاف اُس کا استعمال۔جیسا کہ عالمگیری میں ہے۔(فتاوی خلیلیہ،جلد1،صفحہ246، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

اب آپ راہنمائی کیجیے کہ کیا صورت اختیار کی جائے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

واضح رہے کہ مَردوں کے لیے ازار،شلوار یا پینٹ کا ٹخنوں سے نیچے رکھنا اگر تکبر کی غرض سے ہو تو حرام اور بغیر تکبر ہو تو مکروہ تحریمی (ناجائز)ہے ۔اگر بلا ارادہ کبھی ٹخنے چھپ جائیں تو معاف ہے،لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا بے احتیاطی کرنا درست نہیں ۔

پھر ٹخنوں کا ڈھانپنا خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں بہر دو صورت ممنوع ہے،تاہم نماز میں اس کی حرمت مزید سخت ہوجاتی ہے ۔چنانچہ فقہائے کرام نے ایسا لباس سلوانا یا پہننا ہی مکروہ(ناپسندیدہ) لکھا ہے جو مرد کے ٹخنوں کو ڈھانپ لے۔ چاہے وہ تکبر کی غرض سے ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ احادیث مبارکہ میں ہر صورت میں پائنچے لٹکانے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے قطع نظر اس سے کہ دل میں تکبر موجود ہو یا نہ ہو،لیکن اگر کسی نے اس طرح کا لباس پہن لیا ہے جو ٹخنوں کو ڈھانپتا ہے تو اس وقت شرعی حکم پر عمل کے لیے یا تو اس کو کٹوا کر چھوٹا سلوا لے یا شلوار یا پینٹ کو اوپر سے نہیں تو کم از کم نیچے سے موڑ لے۔تاکہ تہبند لٹکانے کی وعید سے نکل جائے ۔

باقی رہے وہ علماء جو پائنچے موڑنے کو مکروہ تحریمی (ناجائز) اور ٹخنے ڈھانپنے کے عمل کو مکروہ تنزیہی کہتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:

1:ایک تو وہ حدیث مبارک جس میں کپڑوں کے لپیٹنے اور سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے ،مثلاً:

۱)قال – علیہ السلام – أمرت أن أسجد علی سبعة أعظم لا أکف ثوبًا۔۔(صحیح البخاری:کتاب الاذان ،باب الوجود علی الانف ،رقم :812)

ترجمہ :مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور اپنے کپڑوں کو نہ لپیٹوں ۔

۲)کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاة وہو مشمّر کمّہ أو ذیلہ وأشار بذلک إلی أن الکراھة لا تختص بالکفّ وہو في الصّلاة (رد المحتار: 2/407)

2: دوسرا اہل تہذیب اور صلحاء کی ہیئت نہ ہونا؛کیونکہ فقہائے کرام نے ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ لکھا ہے جس کو پہن کر مہذب اور شریفانہ مجالس میں نہ جاسکے ،لوگوں کو معیوب لگے۔

ان دونوں باتوں کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:

در حقیقت ان تمام دلائل سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہوتی کہ پائنچوں کو فولڈ کرنا مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے، بلکہ یہ دونوں وجوہات سمجھنے میں غلطی معلوم ہوتی ہے؛کیونکہ جن احادیث میں” کف الثوب “ کے الفاظ ہیں وہاں ”کف“ سے مراد ”کپڑوں کا سمیٹنا“ ہے ،یعنی بغیر ضرورت یا کپڑوں کو مٹی سے بچانے کے لیے سمیٹنا مکروہ ہے ؛کیونکہ یہ عمل عین تکبر ہے ۔باقی ٹخنوں کو کھلا رکھنے کے لیے کپڑوں کا سمیٹنا یا موڑنا اس حدیث کے تحت داخل نہیں ہے ۔

یا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ نماز کے دوران جھک کر موڑنے کا عمل ہوتواس صورت میں عمل کثیر لازم آئے گا(اور عمل کثیر سے نماز ٹوٹ جائے گی) یا اگرجھک کر بھی نہ موڑے بلکہ نیچے جاتے وقت یہ عمل، عمل قلیل کے ساتھ کرے تو بھی نماز سے توجہ ہٹانے اور خشوع خضوع میں کمی کا باعث بنے گا یہ مکروہ ہے ۔

جبکہ جو شخص نماز سے پہلے ہی موڑ لے تو یہ بلا شبہ درست ہے ۔ اس میں عمل کثیر یا قلیل کچھ بھی لازم نہیں آتا۔(5)

چنانچہ کنز کی مشہور شرح ”تبیین الحقائق :164“ میں اس کی وجہ تکبر ہی لکھا ہے ”لانہ نوع تجبر“اور اسی کے حاشیے میں ”کف الثوب“ کے تحت لکھا ہے: وہو أن یضم أطرافہ اتقاء التراب: 164۔ یعنی ”مٹی سے بچانے کے لیے سمیٹنا“

باقی رہی دوسری دلیل یعنی شامی کی عبارت ”کمشمرکم“ تو ایک تو یہاں ”آستینوں کا چڑھانا “مراد ہے ،کیونکہ آستینوں کو چڑھا کر نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت و حاجت نہیں، اس لیے اس کے اوپر “پائنچوں کے فولڈ“ ہونے کو قیاس کرنا بھی درست نہیں؛ کیونکہ آستینیں چڑھانے میں بے ادبی جھلکتی ہے، نیز کسی گناہ سے بچنے کے لیے ایسا نہیں کیا جاتا ، جبکہ نماز کے اندر” پائنچے کا فولڈ کرنا“ ایک نیک مقصد یعنی گناہ سے بچنے اور عین حکمِ شرعی پر عمل کرنے کے لیے ہے، لہذا یہ مکروہ تحریمی نہیں ہوسکتا ۔

2)باقی رہی دوسری وجہ تو اس کا جواب یہ کہ پائنچے کے فولڈ کرنے کو اگر لوگ معیوب بھی سمجھیں تو شریعت اسے معیوب پھر بھی نہیں سمجھتی،کیونکہ شریعت کے حکم کے سامنے عرف کا اعتبار نہیں (نیز آج کل پائنچے کا فولڈ کرنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا ،بلکہ بہت سے لوگ شوقیہ اس کو فولڈ کرتے ہیں )(4)

چنانچہ آپ ﷺ سے ازار کو نیچے سے اٹھا کر سمیٹ کر نماز پڑھنا ثابت ہے ۔

عن أبي جحیفۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج في حلۃٍ مشمرًا ، فصلی رکعتین إلی العنزۃ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ / باب التشمر في الثیاب رقم: 5786)

قال الحافظ ابن حجر: قال الإسماعیلي: وہٰذا ہو التشمیر، ویوخذ منہ أن النہي عن کف الثیاب في الصلاۃ محلہ في غیر ذیل الإزار، ویحتمل أن تکون ہٰذہ الصورۃ وقعت اتفاقاً، فإنہا کانت في حالۃ السفر، وہو محل التشمیر۔ (فتح الباري 13/ 314 ،دار الکتب العلمیۃ بیروت)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

(1) ”إن الله تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل”۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة:2/ 565، بیت الأفکار رقم:4086)

ترجمہ :بے شک اللہ اس آدمی کی نماز قبول نہیں کرتے جو ازار لٹکا کر نماز پڑھے۔

(2) ”عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم : ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار”. (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،2/ 861، رقم:5559)

ترجمہ:آپﷺ نے فرمایا:”ٹخنے کا جو حصہ پائجامے کے نیچے ہوگا وہ جہنم میں جائیگا“

(3) ”عن أبي ذر عن النبي صلی الله علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره”۔ (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:106)

ترجمے کا مفہوم :آپﷺ نے فرمایا: ”تین اشخاص سے قیامت کے دن اللہ کلام نہیں کریں گے :احسان جتلانے والا ،اپنا سامان جھوٹی قسم سے بیچنے والا،اور ازار لٹکانے والا”

(4) إن العرف العام لا یعتبر إذا لزم منہ ترک المنصوص۔ (شرع عقود رسم المفتي 99)

(5) تقصیر الثیاب سنۃ، وإسبال الإزار والقمیص بدعۃ، ینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین إلی نصف الساق۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 5/ 33)

(6)اعلم أن أصل الصلاۃ ثلاثۃ أشیاء: أن یخضع للّٰہ تعالیٰ بقلبہ، ویذکر اللّٰہ بلسانہ، ویعظمہ غایۃ التعظیم بجسدہ، فہٰذہ الثلاثۃ أجمع الأمم علی أنہا من الصلاۃ۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ2؍30)

(7) ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا مالا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا۔ (درمختار) وفي الشامیۃ: الثالث الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ (درمختار مع الشامي 2؍285 زکریا، طحطاوي علی المراقي 322)

(8) ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا مالا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا۔ (درمختار) وفي الشامیۃ: الثالث الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ (درمختار مع الشامي 2؍285 زکریا، طحطاوي علی المراقي 322)

(9) اتفق العلماء علی النہي عن الصلاۃ وثوبہ مشمر أو کمہ أو نحوہ أو رأسہ معقوص أو مردود وشعرہ تحت عمامتہ أو نحو ذلک، فکل ہذا منہی عنہ باتفاق العلماء وہي کراہۃ تنزیہیۃ، ولو صلی کذلک فقد أساء وصحت صلاتہ۔ (نووي علی مسلم 1/193، فتح الملہم 972،المنہاج بشرح المسلم 483)

(10)فِیْ نُوْرِ الْاَنْوَارِ بَحْثُ حَمْلِ الْمُطْلَقِ عَلَی الْمُقَیَّدِ فِیْ حُکْمٍ وَّاحِدٍ مَا نَصُّہٗ وَ فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ وَرَدَ نَصَّانِ فِی السَّبَبِ وَلَا مُزَاحَمَۃَ فِی الْاَسْبَابِ، فَوَجَبَ الْجَمْعُ بَیْنَہُمَا یَعْنِیْ اِنَّمَا قُلْنَا اِنَّہٗ یُحْمَلُ الْمُطْلَقُ عَلَی الْمُقَیَّدِ فِی الْحَادِثَۃِ الْوَاحِدَۃِ وَالْحُکْمُ الْوَاحِدُ اِنَّمَا ہُوَ اِذَا وَرَدَا فِی الْحُکْمِ لِلتَّضَادِّ وَاَمَّا اِذَا وَرَدَ فِی الْاَسْبَابِ وَالشُّرُوْطِ فَلَا مُضَایَقَۃَ وَلَا تَضَادَّ فَیُمْکِنُ اَنْ یَّکُوْنَ الْمُطْلَقُ سَبَبًا بِاِطْلَاقِہٖ وَالْمُقَیَّدُ سَبَبًا بِتَقْیِیْدِہٖ

.اور مَا نَحْنُ فِیْہِ میں حکم معصیت ہے اور مطلق جر اور جر لِلْخُیَلَاءاسباب اس کے ہیں۔ یہاں مطلق مقید پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پس مطلقِ جر کو بھی حرام کہیں گے اور جر للخیلاء کو بھی۔ البتہ دونوں حرمتوں میں اگر کسی قدر تفاوت مانا جائے تو گنجایش ہے، کیوں کہ ایک جگہ ایک منہی عنہ کا ارتکاب ہے یعنی جر کا اور دوسری جگہ دو منہی عنہ کا ارتکاب ہے یعنی جر کا اور خیلاء کا پس یہ کہنا کہ چوں کہ عرب کا دستور یہی تھا کہ فخراً ایسا کرتے تھے اس لیے حرمت اسی کی ہوگی بلا دلیل ہے۔ کیوں کہ خصوص مورد سے خصوص حکم لازم نہیں آتا جب کہ الفاظ میں عموم ہو وَیَتَفَرَّعُ عَلَیْہِ مِنَ الْاَحْکَامِ الْفِقْہِیَّۃِ۔ رہا قصّہ حضرت صدیقِ اکبررضی اﷲ عنہ کا میرے نزدیک اس حدیث کے معنیٰ یہ ہیں کہ اِنَّکَ لَسْتَ تَفْعَلُہٗ بِالْاِخْتِیَارِ وَالْقَصْدِ چناں چہ اِلَّا اَنْ اَتَعَاہَدَ اس کی دلیل ہے کہ بلا قصد ایسا ہوجاتا تھا اور اسی کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا ہے۔ رہا للخیلاءکی قیدیہ اس بناء پر ہے کہ اکثر جو لوگ اس فعل کو اختیار کرتے ہیں وہ براہِ خیلاء کرتے ہیں۔ پس حدیث میں اطلاق بسبب (یعنی فعلہ بالخیلاء) کا مسبّب (یعنی فعل بالاختیار) پر ہوا ہے۔ وہو شایع فی الکلام ای شیوع، فقط۔ واللہ اعلم۔ (امداد الفتاویٰ ،جلد :4 ،صفحہ :121 تا 122)

فقط واللہ اعلم۔

17/نومبر/۲۰۲۱

11/ربیع الثانی/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں