نماز میں تکرار فاتحہ سے سجدہ سہو واجب ہونے کا حکم

فتویٰ نمبر:1009

نماز کی کسی رکعت میں پوری سورة فاتحة کو یا اس کی کچھ آیات کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھ دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟
نیز یہ کہ فاتحہ میں اگر کسی لفظ کا تلفظ ٹھیک ادا نہ ہوا ہو اس وجہ سے دو تین مرتبہ دہرادیا آیت کو یا لفظ کو
یا دھیان نہ جم رہا ہو اس وجہ سے سورت کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ایسا کرنا درست ہے؟ اگر نہیں تو اس طور پر جو نمازیں پڑھ چکےہیں ان کا کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

آپ کے سوالات کے ترتیب وار جواب دیے جارہے ہیں:

١ـ اگر فرض کی ابتدائی دو رکعتوں میں کسی رکعت میں تکرار فاتحہ سہوا ہوا ہے تو سورت ملانے میں تاخیر ہونے کی وجہ سےسجدۂ سہو واجب ہے، اگر قصدا ہوا تو نماز کا اعادہ واجب ہے، لیکن دوبارہ کتنی مقدار آیت پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہے؟ تو فقہ حنفی میں اس کے متعلق روایات صریح نہیں اکابر علما کے دو قول ہیں:

١ـ بعض فاتحہ یعنی ایک آیت کے بقدر دوبارہ پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔

٢ ـ اکثر علما کا قول ہےکہ اکثر فاتحہ یعنی نصف سے زائد پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوگا ، اس قول میں آسانی ہے ۔

اس کے برعکس اگر فرض کی اخیر کی دورکعت میں سورہ فاتحہ دوبارہ پڑھی یا پہلی ہی دو رکعت میں پڑھی لیکن مسلسل نہیں ، بلکہ ایک دفعہ سورت سے پہلے پڑھی پھر دوبارہ سورت کے بعد پڑھی تو سجدہ واجب نہیں. بھول سے ایسا ہوا تو کراہت بھی نہیں ۔ جان کر کیا تومکروہ ہے ، یہ تفصیل فرض نماز میں ہے۔سنن ونوافل اور تراویح میں سورۂ فاتحہ یا اس کے کسی جزء کے تکرار سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔

٢ـ سورة فاتحہ کے کسی حرف کی اصلاح کے لیے لفظ یا آیت کی تکرار کی تواس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیاکہ اکثر سورہ فاتحہ کی تکرار موجب سجدہ سہو ہے ۔

٣ ۔نماز میں دھیان لگانے کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا قصدا تکرار کرنا درست نہیں،آئندہ احتیاط کریں۔
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ :
ولوکررھا : (أي الفاتحۃ) في الأولیین یجب علیہ سجود السہو ، بخلاف ما لو أعادھا بعد السورۃ أو کررھا في الأخریین ۔ وکذا في التبیین ۔ (۱/۱۲۶، کتاب الصلاۃ ، الباب الثاني عشر في سجود السہو ، تبیین الحقائق :۱/۳۷۳ ، کتاب الصلاۃ ، باب سجود السہو ، حاشیۃ الطحطاوي علی مرا قي الفلاح :ص/۴۶۰ ، کتاب الصلاۃ ، باب سجود السہو ، حلبي کبیر :ص/۴۶۰ ، کتاب الصلاۃ ، فصل في سجود السہو)

ولو کرر الفاتحة او بعضھا فی احدی الاولیین قبل السورة سجد للسہو ۔
(طحطاوی علی مراقی الفلاح ٤٦٠ باب سجود السہو)

ولو قرأھا في رکعۃ من الأولیین مرتین وجب سجود السہو لتاخیر الواجب الخ، وکذا لو قرأ أکثرھا ثم أعادھا کما في الظہیریۃ۔ (شامی زکریا ۲؍۱۵۲) ولو قرأ الحمد فی الأخریین مرتین لا سہو علیہ۔ (بدائع الصنائع ۱؍۴۰۶)
وینبغي أن یقید ذٰلک بالفرائض؛ لأن تکرار الفاتحۃ في النوافل لم یکرہ، کما في القہستاني۔ (مجمع الأنھر ۱؍۲۲۰)
’إذا کرر آیۃ واحدۃ مرارًا إن کان في التطوع الذی یصلیہ وحدہ فذالک غیر مکروہ، وإن کان في الفریضۃ فہو مکروہ ، وھذا في حالۃ الاختیار اما في حالۃ العذر والنسیان فلا باس بہ ، تتمات فیما یکرہ من القرأۃ في الصلاۃ۔ ( کبیری : ٤٦٢)
ذکر فی الفوائد لوقرا فی الصلاة بخطا فاحش ثم رجع وقرا صحیحا قال عندی صلاتہ جائزة وکذلک الاعراب۔ (الفتاوی الھندیة : ١\٨٢ باب زلة القارئ)

واللہ اعلم بالصواب
بنت عبدالباطن عفی عنھا
دارالافتاصفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
٨شعبان ١٤٣٩ ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں