نمازی کا غیر ِ نمازی سے لقمہ لینے کی صورت میں نماز کا حکم

سوال:۱ اگر نماز کی حالت میں کوئی نمازی کو ہدایت کرے مثلاً تمہارا سر کھل رہا ہے وغیرہ تو اس ہدایت کو قبول کرلینے سے کیا نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔

اگر نماز ٹوٹ جاتی ہے تو اگر کسی کو یہ مسئلہ پہلے معلوم نہ تھا اور اسنے ہدایت پر عمل کرلیا تھا تو کیا اسکو نمازوں کی جو پہلے پڑھی ہیں قضاء کرنی پڑے گی ۔

۲  نفل نماز میں دوسجدوں کے درمیان بیٹھ کر “اللھم اغفرلی وارحمنی واھدنی الخ”دعا جو پڑھتے ہیں تو کیا فرائض میں یہ دعا پڑھ سکتے ہیں ؟

فتویٰ نمبر:341

الجواب حامداً ومصلیاً
۱  صورتِ مسؤلہ میں اگر کسی نے نمازی کو سرڈھانپنے کو کہا اور اس نے اس حکم پر عمل کرلیا تو نماز فاسد ہوجائے گی ۔
البتہ اگر فی الفور اس کے کہنے پر عمل نہ کرے بلکہ کچھ دیر وقفہ کرکے خود سوچ کر یہ کام کرلے یا اس نے محض “سر کا کھلا ہونا بتلایا تھا سر ڈھانپنے کو نہیں کہا تھا ” نمازی نے خود ہی سر ڈھانپ لیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی(۱) ۔
لمافی الدر المختار – (1 / 622)
لو امتثل أمر غيره فقيل له تقدم فتقدم…… فسدت بل يمكث ساعة ثم يتقدم برأيه
۲  فرائض میں یہ دعاء پڑھنا مسنون نہیں ،صرف نوافل اور تہجد میں مسنون ہے(۲) ۔
البتہ اگر کسی منفرد شخص نے فرض میں یہ دعا پڑھ لی تو یہ مکروہ نہیں ، بلکہ علامہ شامی ؒ کی رائے میں اسے مستحب ہونا چاہئے ۔
فی الدر المختار – (1 / 505)
ويجلس بين السجدتين مطمئنا….. وليس بينهما ذكر مسنون…. وما ورد محمول على النفل
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 505)
قَالَ أَبُو يُوسُفَ: سَأَلْت الْإِمَامَ أَيَقُولُ الرَّجُلُ إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي؟ قَالَ: يَقُولُ رَبَّنَا لَك الْحَمْدُ وَسَكَتَ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ فِي الْجَوَابِ إذْ لَمْ يَنْهَ عَنْ الِاسْتِغْفَارِ نَهْرٌ وَغَيْرُهُ.

أَقُولُ: بَلْ فِيهِ إشَارَةٌ إلَى أَنَّهُ غَيْرُ مَكْرُوهٍ إذْ لَوْ كَانَ مَكْرُوهًا لَنَهَى عَنْهُ….. وَعَدَمِ كَوْنِهِ مَسْنُونًا لَا يُنَافِي الْجَوَازَ كَالتَّسْمِيَةِ بَيْنَ الْفَاتِحَةِ وَالسُّورَةِ، بَلْ يَنْبَغِي أَنْ يُنْدَبَ الدُّعَاءُ بِالْمَغْفِرَةِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ خُرُوجًا مِنْ خِلَافِ الْإِمَامِ أَحْمَدَالخ

التخريج

(۱)الدر المختار – (1 / 644)

أما لو قيل له تقدم فتقدم أو دخل أحد الصف فوسع له فورا فسدت

البناية شرح الهداية – (2 / 442)

قيل للمصلي: تقدم فتقدم أو دخل وأخذ فرجة الصف فتجانب المصلي توسعة له فسدت صلاته؛ لأنه امتثل أمر غير الله في الصلاة، وينبغي للمصلي أن يمكث ساعة ثم يتقدم برأيه.

(۲)الفقه الإسلامي وأدلته-أ. د. وهبة الزحيلي – (2 / 86)

ليس عند الحنفية بين السجدتين دعاء مسنون، كما ليس بعد الرفع من الركوع دعاء، ولا في الركوع والسجود على المذهب كما قدمنا، وما ورد محمول على النفل أو التهجد.

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (1 / 340)

 وَلَمْ يَذْكُرْ الْمُصَنِّفُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ذِكْرًا مَسْنُونًا، وَهُوَ الْمَذْهَبُ عِنْدَنَا، وَكَذَا بَعْدَ الرَّفْعِ مِنْ الرُّكُوعِ وَمَا وَرَدَ فِيهِمَا مِنْ الدُّعَاءِ فَمَحْمُولٌ عَلَى التَّهَجُّدِ، قَالَ يَعْقُوبُ سَأَلْت أَبَا حَنِيفَةَ عَنْ الرَّجُلِ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فِي الْفَرِيضَةِ أَيَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي قَالَ يَقُولُ رَبَّنَا لَك الْحَمْدُ وَسَكَتَ وَكَذَلِكَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فَقَدْ أَحْسَنَ حَيْثُ لَمْ يَنْهَهُ عَنْ الِاسْتِغْفَارِ صَرِيحًا.

اپنا تبصرہ بھیجیں