نکاح میں بالغ کی رضامندی شرط ہے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔

جنا ب مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے جس کا جواب تحریری صورت میں درکار ہے۔

میرا تعلق ایک پختون خاندان سے ہے۔میں عاقل اور بالغ ہوں میرے والد اور میرے چچا بطور گواہ لڑکی کے گھر گئے اورمیرانکاح مجھ سے پوچھے بغیر اور میری مرضی کے خلاف کردیا۔ میں اس نکاح کے سخت خلاف ہوں ۔ میرے چچا جو عالم ہیں بقول ان کے میرا نکاح ہوگیا ہے جب کہ میں اس نکاح کے خلاف ہوں اس کے علاوہ جس لڑکی سے نکاح کیا گیا ہے وہ لڑکی بھی اس نکاح پر رضا مند نہیں ہے لڑکی خودکشی کی کوشش بھی کرچکی ہے۔

میں اپنے والد کے سامنے ان کی سخت مزاجی کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتا اور میں نے قبول بھی نہیں کیا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔جزاک اللہ خیرا

بندہ : سرباز خان

موبائل نمبر : 03002294318

الجواب حامدا و مصلیا

عاقل ، بالغ اولاد کو شریعت نکاح کے معاملے میں پسند نا پسند کا حق دیتی ہے ۔رواج اور معاشرہ کے خوف سے شرعی احکامات کو مسترد کرکے اولاد کو قبول کرنے کا حق نہ دینا شریعت میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اکرم ﷺ سے اپنی رضامندی کے خلاف اپنے والد کے نکاح کردینے کے بارے میں ذکر کیا تو رسول اکرم ﷺ نے اس عورت کو نکاح ختم کردینے کا اختیار دے دیا ۔ لہذا اولاد پر نکاح کے معاملے میں جبر کرنا خلاف شریعت ہے۔

عاقل ،بالغ لڑکا ،لڑکی کا نکاح درست ہونے کے لئے دونوں کی رضامندی اور ایک ہی مجلس میں ایجاب اور قبول ضروری ہے ۔ بالغ لڑکے کے لئے زبانی رضامندی ضروری ہے لڑکے کی خاموشی رضامندی کی دلیل نہیں۔

مذکورہ بالا صورت میں بالغ لڑکے کے والد نے اگر بغیر اجازت اور اس کی رضامندی کے بغیر اس کی طرف سے ایجاب کیا جبکہ لڑکے نے اپنی طرف سے والد کوقبول کرنے کا وکیل مقرر نہیں کیا تھا تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ۔ اس صورت میں والدصاحب کا زور زبردستی کرنا درست نہیں ۔

۱۔ فی سنن ابی داؤد: کتاب النکاح، بَابٌ فِي الْبِكْرِ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا وَلَا يَسْتَأْمرهَا

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».

۲ وفیہ ایضا : کتاب النکاح، باب الاستئمار

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تُسْتَأْمَرُ الْيَتِيمَةُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ سَكَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا

۳۔وفی التنویر مع الدروالرد: کتاب النکاح،۳/۷۸ مکتبہ رشیدیہ

فینعقد ملتبسا ( بایجاب) من احدھما(وقبول) من الآخر۔ وتحتہ فی الشامیۃ: قولہ: (ینعقد) ای:النکاح: ای یثبت و یحصل انعقادہ بالایجاب والقبول۔

۴۔ وفی التنویر مع الدروالرد: کتاب النکاح،۳/۹۷مکتبہ رشیدیہ

(وشرط سماع کل من العاقدین لفظ الآخر) لیتحقق رضاھما۔ وتحتہ فی الشامیۃ : قولہ: (سماع کل) ولو حکما کالکتاب الی غائبہ لان قراءتہ قائمۃ مقام الخطاب۔ قولہ(لیتحقق رضاھما) ای: لیصدر منھما ما من شانہ ان یدل علی الرضا۔

۵۔ وفی التنویر مع الدروالرد: کتاب النکاح،۳/۱۵۵مکتبہ رشیدیہ

(ولا تجبر البالغۃ البکر علی النکاح )لانقطاع الولایۃ بالبلوغ ۔وتحتہ فی الشامیۃ: قولہ: ( ولا تجبر البالغۃ) ولا الحر البالغ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان زوجھا بغیر استئمار فقد اخطاء السنۃ وتوقف علی رضاھا۔

۶۔ وفی التنویر مع الدروالرد: کتاب النکاح،۳/۲۱۳مکتبہ رشیدیہ

( ولا یتوقف الایجاب علی قبول غائب عن المجلس فی سائر العقود) من نکاح و بیع وغیرھما ،بل یبطل الایجاب ، ولا تلحقہ الاجازۃ اتفاقا۔ 

وتحتہ فی الشامیۃ: قولہ:(علی قبول غائب) ای: شخص غائب، فاذا اوجب الحاضر وھو فضولی من جانب او من الجانبین لا یتوقف علی قبول الغائب ، بل یبطل وان قبل العاقد الحاضر۔قولہ:(فی سائر العقود) قال المصنف فی المنح : ھو اولی مما وقع فی الکنز من قولہ: علی قبول ناکح غائب۔

واللہ اعلم بالصواب

محمدعثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد اسلامک ریسرچ سینٹر

۴/۴/۱۴۴۱ھ

2019/12/02

اپنا تبصرہ بھیجیں