اویس نام رکھنا جائز ہے یا نہیں

کیافرماتے ہیں علماء کرام اورمفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

میرانام محمدعلی ہےاورمیں خطاطی کا کام کرتاہوں ،میں نے اپنے لئے” علی  ” کے نام سے ایک کارڈ چھپوایاہے اس لئے کہ میں لوگوں میں علی کے نام سےمشہور ہوں ،تواب بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم شیعہ بن گئے،اوربعض  کہتے ہیں کہ مذکورہ طریقہ سےیہ نام اللہ  تعالیٰ کاہےبندے کیلئے یہ  نام رکھناجائزنہیں ہے۔اور اس وجہ سے مجھے مختلف قسم کی دھمکیاں مل رہی ہیں ،کہ اس سے بازآجاؤورنہ نقصان اٹھانا پڑےگا،برائے مہربانی بندہ کے اس بارے میں شرعی نکتہ نگاہ سے آگاہ فرمائیں؟

سوال نمبر۲ :

جناب حضرت مفتی صاحب  : اویس  الرحمان نام رکھنا اسلام میں جائز ہے یانہیں؟عام طورپرلوگوں میں یہ مشہورہے کہ بچوں کانام اویس نہ رکھاجائے کہ اس کی وجہ سے حضرت اویس  قرنی  رحمہ اللہ نبی کریم ﷺ کی صحبت اختیارنہ کرسکے۔  

الجواب حامداًومصلیاً

        حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن انسان کواس کے اوراس کے آباءکے نام سے پکارا جائےگاپس تم اپنے نام اچھے رکھاکرو ،انسان کو حدیث پاک میں اچھے نام رکھنے کاحکم دیاگیاہے ان جیسی احادیث کی بناءپرفقہاءفرماتے ہیں کہ انسان کوانبیاءعلیھم  الصلوٰۃ والسلام ،صحابہ  رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین   ،  یاتابعین رحمھم اللہ  کے ناموں پراپنااوراپنی اولاد کانام رکھنا چاہیے چونکہ انبیاءعلیھم السلام اسی طرح صحابہ ؓ تابعین ؒ کے ناموں کے معانی کا اچھا ہونے کیلئے اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں کہ یہ اسماء ان مبارک ومقدس  ہستیوں سے وابستہ ہیں اس لئے ان حضرات کے ناموں پرنام رکھنا افضل ہے ،لہذا ” علی  ” نام رکھنا درست ہے اس لئے کہ یہ ایک صحابی رسول ﷺ  کانام ہے اس نام کے جتنے خدشات ہیں وہ درست نہیں ہے،جہاں تک شیعوں کاتعلق

ہےتوحضرت سیدناعلیؓ اورجمیع اہلِ بیت پراہلِ تشیع کی اجارہ داری نہیں ہے،ہمارےلئےان اہلِ بیت کی عظمت اورمنقبت یقیناًاہلِ تشیع سےکہیں گناہ زیادہ ہے،لہذااگرکسی کوعلی نام رکھنےمیں اس قسم کےشبہات ہوتےہوں توایسوں کےسامنےضروران حضرات کےناموں پراپنےنام رکھےجائیں۔

سنن أبى داود-ن – (4 / 442)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى زَكَرِيَّاءَ عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ ». قَالَ أَبُو دَاوُدَ ابْنُ أَبِى زَكَرِيَّاءَ لَمْ يُدْرِكْ أَبَا الدَّرْدَاءِ.

(۲)   سائل کانام اویس   رکھنا شرعاً درست ہے اس لئے کہ حضرت اویس قرنی ؒ  مشہور تا بعی  ہے حضور ﷺ کی حیات ِ مبارکہ میں موجود تھے لیکن آپ ﷺ سے ملاقات نہ ہوسکی آپ علیہ السلام نے ان کے اویس نام  ہونے پرنکیرنہیں فرمائی لہذا اویس نام رکھنے میں  کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔                                   

            جہاں تک حضرت اویس قرنی ؒ نبی کریم ﷺ کی صحبت اختیار نہ کرنے کی بات ہے اس میں یہ بات ہے کہ حضرت اویس  قرنی ؒ اپنی والدہ کی خدمت کررہے تھے اس وجہ سے صحبت کا شرف حاصل نہ کرسکے،اس کےباوجودنبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سےانکےلئےبہت بلنداورعمدہ کلمات اورمبشرات واردہوئی ہیں۔

صحيح مسلم – عبد الباقي – (4 / 1968)

حدثنا سليمان بن المغيرة حدثني سعيد الجريري عن أبي نضرة عن أسير بن جابر أن أهل الكوفة وفدوا إلى عمر وفيهم رجل ممن كان يسخر بأويس فقال عمر هل ها هنا أحد من القرنيين فجاء ذلك الرجل فقال عمر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له أويس لا يدع باليمن غير أم له قد كان به بياض فدعا الله فأذهبه عنه إلا موضع الدينار أو الدرهم فمن لقيه منكم فليستغفر لكم.

صحيح مسلم – عبد الباقي – (4 / 1968)

 عن عمر بن الخطاب قال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول

 إن خير التابعين رجل يقال له أويس وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم

اپنا تبصرہ بھیجیں