پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ چوتھی قسط

پاکستان کے لئے خطرناک ممالک

(02) ایران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خطرناک ممالک کی فہرست دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کی طرح ایرانی قوم سے پاکستان کو کوئی مسئلہ درپیش ہے یا دونوں ممالک میں کوئی علاقائی تنازعہ ہے جس سے قومی سطح کی کوئی دشمنی چلی آرہی ہے بلکہ بھارت کے برخلاف ایران سے پاکستان کو درپیش خطرات کا تعلق انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والے مذہبی عناصر سے ہے۔ اگر آپ ایران کے انقلابیوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو پچھلے پینتیس سال کے دوران ان کی یہ پالیسی پورے تسلسل سے چلی آرہی ہے کہ اپنا انقلاب صرف ایران تک نہ رکھا جائے بلکہ اسے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ جائز ناجائز ہر طرح کے حربے آزمانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانا، عدم استحکام پیدا کئے رکھنااور اس کے نتیجے میں بغاوت کرانا اس رجیم کی اہم ترین حکمت عملی ہے۔ اس مقصد کے لئے پڑوسی ممالک میں واقع اپنے ثقافتی مراکز (خانہ فرہنگ) میں ورکشاپس کرائی جاتی ہیں جو بظاہر فارسی زبان کی ترویج اور تہذیبی، ثقافتی اور تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان کے شرکاء میں سے ہی کام کے بندے چن لئے جاتے ہیں اور انہیں زائرین کی شکل میں ایران لے جایا جاتا ہے جہاں پاسداران انقلاب انہیں عسکری تربیت فراہم کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پینتیس برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو عسکری تربیت دی گئی ہے۔

پاکستان کے چار علاقے ایسے ہیں جہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں ریکروٹمنٹ کی گئی ہے بلکہ ان علاقوں کو بارود کا ڈھیر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ان میں گلگت، پاڑہ چنار، کویٹہ اور کراچی شامل ہیں۔ پاکستان میں ایرانی مفادات کا پہلا نگہبان علامہ عارف حسین الحسینی تھا جس نے پاڑہ چنار کو دہشت گردی کے اہم مرکز میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف پاڑہ چنار میں ایک بے رحم خفیہ فوجی آپریشن کروایا بلکہ عارف حسینی بھی نہ رہا۔ ایران کی جانب سے 80 کی دہائی میں نہ صرف یہ کہ اسلام آباد پر قبضے کے لئے پارلیمنٹ اور پاک سیکریٹیریٹ کا محاصرہ کیا گیا بلکہ کوئٹہ میں 6 جولائی 1986ء کو بدترین قتل عام بھی کیا گیا جس میں شہر کو لوٹا بھی گیا۔ اس واقعے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بڑی تعداد میں پاسداران انقلاب کے اہلکار گرفتار کئے جنہیں ایران سے مذاکرات کے بعد اس کے حوالے کیا گیا ۔ خود ایرانی مؤرخین نے عارف حسین الحسینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے امام خمینی کا مشن عام کرنے کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ عارف حسینی کے بعد یہ ذمہ داریاں علامہ ساجد نقوی کی سونپی گئیں جو ریکروٹمنٹ تو کراتے رہے لیکن پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ کرانے میں ناکام رہے۔ چنانچہ ان سے مایوس ہوکر اب پاکستان میں یہ ذمہ داریاں امین شھیدی اور اس کی مجلس وحدت المسلمین کو سونپی گئی ہیں۔

اگر آپ امین شھیدی کی پھرتیاں دیکھیں تو آپ کو اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئیگی کہ وہ کچھ بڑا “ڈیلیور” کرنے کو کسقدر بے قرار ہیں۔ امین شھیدی کے چارج سنبھالنے کے بعد دو چیزوں میں تیزی آئی۔ ایک یہ کہ کوئٹہ میں ہزارہ آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی اور دوسری یہ کہ اٹھارہ سے تیس سال کے زائرین کا ایران آنا جانا یکایک بہت بڑھ گیا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران افغانستان اور ایران سے کوئٹہ لا کر بسائے جانے والے ہزارہ قوم کے افراد کی تعداد اکیس ہزار بتائی جاتی ہے جنہیں نادرہ کے جعلی آئی ڈی کارڈ زفراہم کرکے پاکستانی شہری بنایا جا چکا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے ان چیلنجز سے پوری دانشمندی سے نمٹ رہے ہیں لیکن اپنی سر زمین پر اور یہ نمٹنا اسقدر مؤثر ہے کہ اب ایران نے باقاعدہ تلملانا بھی شروع کردیا ہے۔ وہ نہ صرف پاک ایران باڈر پر ایف سی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے بکہ کچھ عرصہ قبل ایران میں اغوا ہونے والے اپنے فوجیوں کے اغوا میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کر چکا حالانکہ اغوا کار پاکستان سے سینکڑوں کلومیٹر دور اافغان باڈر کے قریب ایران میں ہی موجود تھے اور ایران نے اغوا کاروں کے ساٹھ قیدیوں کے بدلے میں اپنے فوجی چھڑائے تھے۔ حالیہ عرصے میں اگر آپ گزشتہ برس کراچی آپریشن کے دوران اسے لیڈ کرنے والے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کی پریس کانفرنس دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگز میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ براہ راست ایران بھی ملوث ہے۔ شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں ایران کا نام لے کر تفصیل بتائی تھی۔

پاکستان کے حوالے ایران کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان نوے فیصد شیعہ آبادی اس کے ایجنڈے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے پر عزم ہے۔ چانچہ اگر آپ غور کریں تو محرم یا دیگر تاریخوں کی مذہبی ایکٹوٹیز میں تو پاکستان کے لاکھوں شیعہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں لیکن جب امین شھیدی جیسے لوگ دھرنے کی کال دیتے ہیں تو انہیں بس اتنے ہی لوگ میسر آتے ہیں کہ چار بانسوں والا ایک شامیانہ انکے لئے کافی ہوتا ہے۔ یاد رکھئے ایرانی انقلاب سے قبل پاکستان میں کوئی شیعہ سنی جھگڑہ نہ تھا اس جھگڑے اور “مسلح فرقہ واریت” کی بنیاد ایران نے ڈالی ہے اور ایران میں جب تک موجودہ رجیم ہے تب تک یہ “مسلح فرقہ واریت” ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ ایران امریکہ سے دوستی کے بعد پڑوسی ممالک میں بغاوتیں کرانے کی کوششوں میں بے پناہ تیزی لاچکا ہے۔ یاد رکھئے کہ ایران اور اسرائیل دشمن ممالک ہرگز نہیں ہیں انکے بابین ہونے والی ہوائی فائرنگ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ایران عراق جنگ کے دوران ایران اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائیل تک خریدتا رہا ہے جسکی ڈیلیوری 1985ء میں شروع ہوئی اور آخری شپمنٹ 1986ء میں تبریز ایئربیس پر اتری۔ اپنا انقلاب عسکری بنیادوں پر پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی سرتوڑ کوششوں، پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین واقعات میں مسلسل ملوث ہونے اور پاکستان میں بغاوت کی تین ناکام کوششوں کے سبب پاکستان کی خارجہ و ڈیفنس پالیسی میں ایران کو دوسرے بڑے چیلنج کے طور پر رکھا گیا ہے۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں