پھل ظاہر ہونے سے پہلے خرید وفروخت کے احکام

فتویٰ نمبر:437

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ!

ا۔ بعد از سلام مسنون عرض یہ ہے کہ آج کل باغات کی خرید و فروخت کا سلسلہ چلا ہوا، جس کی مختلف صورتیں ہیں، بسا اوقات پھل بالکل چھوٹے ہیں، بسا اوقات پھل انسان اور جانوروں میں سے کسی کے استعمال کے قابل نہیں ہوتے اور بسا اوقات پھل ظاہر ہی نہیں ہوتے بلکہ صرف پھول ظاہر ہوئے ہوتے ہیں، اس قسم کی صورتوں میں پھلوں کے باغات کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

۲۔ زید کہتا ہے کہ قبل بد و الصلاح پھلوں کی خرید و فروخت کی ممانعت صرف کھجور میں ہے کیونکہ اس پر نص موجود ہے، باقی پھلوں کے بارے میں نص نہیں ہے اس لئے ان کی خرید وفروخت جائز ہے، نیز قبل بد والصلاح کی اصل وجہ جھگڑ ا ہے لیکن ایک مجہول مال کی مجہول کیفیت کی وجہ سے فریقین میں جھگڑا ہو سکتا ہے، جبکہ فریقین میں سے مشتری بہت تجربہ کار ہے اور کہتا ہے کہ میں خریداری ہر قسم کے حوادثات کو مد نظر رکھ کر کر تا ہوں، اور جن بیماریوں کا خطرہ ہے ان کیلئے بھی اعلی قسم کی ادویات ہیں، مذکورہ وجوہات کی بناپر آموں کے باغات کی خرید و فروخت قبل بدو الصلاح جائز ہے یا نہیں؟

مستفتی: نادر علی ( سادسہ)

بسم اللہ الرحمن الرحيم

الجواب حامدا ومصليا

 (۱)۔۔۔ باغ کے درختوں پر اگر پھل ظاہر ہو چکے ہوں لیکن چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ کھانے کے قابل نہ ہوں تو عرف و تعامل کی وجہ سے ایسے باغ کے پھلوں کی خرید و فروخت کی گنجائش ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت ان پھلوں کو درختوں پر چھوڑنے کی شرط نہ لگائی جائے کیونکہ یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے، لہذا عقد مطلقا کیا جائے عقد کے بعد اگر مالک کی اجازت ور ضامندی سے ان پھلوں کو درختوں پر چھوڑ دیا جائے تو شرعا اس کی گنجائش ہے۔ نیز جو پھل اتنے چھوٹے ہوں کہ وہ انسانوں اور جانوروں دونوں میں سے کسی کیلئے بھی قابل انتفاع نہ ہوں ان کی بیع کے جواز اور عدم جواز میں مشائخ احناف کے در میان اختلاف ہے، امام قاضی خان نے فرمایا کہ عامۃ المشائخ ایسی صورت میں پھلوں کی بیع کو ناجائز قرار دیتے ہیں، لیکن علامہ ابن ہمام نے  فرمایا کہ صحیح  یہ ہے کہ ان کی بیع  جائز ہے۔ اور جن باغوں میں کچھ پھل ظاہر ہو چکے ہیں، اور کچھ ابھی ظاہر ہونا باقی ہوں تو اس صورت میں موجود پھلوں کو اصل قرار دے کر آنے والے پھلوں کو ان کے تابع قرار دے کر شرعابیع کے جواز کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ بعض فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔

اور اگر باغ کے درختوں پر پھل ظاہر نہ ہوئے ہوں بلکہ صرف پھول لگے ہوئے ہوں تو ایسے باغ کے پھلوں کی خرید و فروخت نا جائز ہے، کیونکہ متعد د شر عی خرابیوں کی وجہ سے یہ بیع باطل ہے اور بے باطل نا جائز  ہوتی ہے۔ البتہ اس کی جائز متبادل دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

پہلی صورت: جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو تو باغ کا مالک اس ٹھیکیدار کو پہلے اپناباغ مساقات(بٹائی) پر اس شرط پر دے کہ ٹھیکیدار خود اپنے ملازمین اور مدد گاروں کے ذریعے درختوں کی دیکھ بھال کرے گا اور باہمی رضامندی سے حصہ داری کی کوئی نسبت طے کر لی جائے مثلا دس فیصد حصے ٹھیکیدار کے ہوں اور باقی نوے فیصد حصے باغ کے مالک کے ، یا ایک فیصد حصہ مالک باغ کا ہو اور باقی نناوے فیصد حصے ٹھیکیدار کے ، یا کوئی بھی نسبت باہمی رضامندی سے طے کر لیں حتی کہ ایک فی ہزار کی نسبت بھی طے کی جاسکتی ہے کہ ایک ہزار حصوں میں سے ایک حصہ مالک کا ہو گا اور نو سو نناوے حصے ٹھیکیدار کے ہوں گے، جب ٹھیکیدار سے یہ معاملہ طے پا جائے تو اس کے بعد علیحدہ مستقل معاملے کے طور پر باغ کی زمین اسی ٹھیکیدار کو کرایہ پر دیدے، کرایہ باہمی رضامندی سے کچھ بھی طے کیا جاسکتا ہے، جس کی ادائیگی فوری یا تاخیر کے ساتھ دونوں طرح سے طے کی جاسکتی ہے اور اگر چاہے تو کر ایہ اتنا مقرر کر لے جتنا عام طور پر ٹھیکہ پر دیتے وقت مقرر کیا جاتا ہے ، آخر میں جب درختوں سے پھل تیار ہو جائیں تو مالک باغ کو اختیار ہے کہ پھلوں میں اپنا طے شدہ حصہ وصول کرلے یا اپنا حصہ ٹھیکیدار ہی کو بخش دے یا فروخت کر دے۔

تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس صورت میں دونوں معاملے مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ کرنا ضروری ہیں، پہلے مساقات کا معاملہ ، پھر زمین کے کرایہ کا معاملہ ،یعنی  ایک معاملہ دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہو۔

دوسری صورت: جس وقت، درختوں پر پھل ظاہر نہ ہوئے ہوں، بلکہ محض پھول ہوں تو اس وقت بیع نہ کی جائے بلکہ وعدہ بیع کیا جائے مثلا ، بائع (فروخت کنندہ) مشتری (خریدار) کو کہے کہ جب پھل  قابل بیع ہو جائیں گے تو میں اتنی رقم کے عوض وہ پھل آپ کو بیچ دوں گا اور خریدار اس بات کا وعدہ کرے کہ میں اس رقم کے عوض یہ پھل خرید لوں گا، اور اس صورت میں بائع یہ دیکھنے کے لئے کہ خریدار اپنے وعدہ میں سنجیدہ ہے یا نہیں ، کچھ رقم وعد ہ کے وقت لے سکتا ہے۔ پھر جب پھل بیع کے قابل ہو جائیں تو خرید ار باقاعدہ بیع( ایجاب و قبول) کے ذریعے ان پھلوں کو خرید لے اور اس وقت باہمی رضامندی سے سابقہ قیمت پر بھی بیع ہو سکتی ہے اور نئی قیمت پر بھی ہو سکتی ہے، البتہ وعدہ کے وقت لی گئی رقم کو اصل قیمت سے منہا کیا جائے گا۔

نیز مشتری کے لئے یہ جائز ہو گا کہ وہ بائع کی اجازت اور رضا مندی سے تبرعا( بغیر عوض کے) باغ کی دیکھ بھال کر تا ہے تاکہ وہ اچھی کوالٹی کے پھل حاصل کر سکے۔ (ماخذہ بتصرف :رجسٹر دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی: ٣٠/١٤١٢ ،٥٣/ ١٤٣٢، ١٤/ ١٥٠٩)

(٢ )۔۔۔ درختوں پر پھل ظاہر ہونے سے پہلے ان کی خرید و فروخت سے احادیث مبارکہ میں ممانعت آئی ہے، اور فقہاء کرام نے ممانعت کی اصل وجہ اور بنیاد فریقین کے در میان محض ممکنہ جھگڑے کا ہونا قرار نہیں دیا، نیز یہ ممانعت صرف کھجور کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ کھجور کی طرح دیگر عام پھل بھی اس ممانعت میں شامل ہیں، لہذا سوال میں ذکر کر دہ مؤقف علمی اعتبار سے درست نہیں ہے، اور جواب نمبر (۱) میں ذکر کردہ تفصیلات کی روشنی میں ممنوع صورتوں سے اجتناب ضروری ہے۔

في صحيح البخاري (1/ 169):

حدثنا أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي أنه نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها وعن النخل حتى يزهو قيل وما يزهو قال يحمار أو يصفار

وفي صحيح مسلم (3/ 1190):

عن أنس بن مالك، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمرة حتى تزهي»، قالوا: وما تزهي؟ قال: «تحمر»، فقال: «إذا منع الله الثمرة فبم تستحل مال أخيك؟»

 وفي سنن أبي داود (3/ 260):

عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع العنب حتى يسود و عن بيع الحب حتى يشتد.

 وفي تكملة فتح الملهم بشرح صحيح الإمام مسلم (1/250 تا 255):

 2- حكم البيع قبل بدو الصلاح: ثم إن بيع الثمار قبل ظهورها باطل إجماعا, ولا خلاف فيه, لكونه بيع المعدوم, أما بيعها بعد الظهور قبل بدو الصلاح فله صور ثلاثة:

الأولى: أن يشترط البائع على المشتري أن يقطعها فورا ولا يتركها على الأشجار وهذه الصورة جائزة بإجماع الأئمة الأربعة وجمهور فقهاء الأمصار . الخ

والصورة الثانية: أن يشترط المشتري ترك الثمار ترك الثمار على الأشجار حتى يحين الجذاذ. وهذه الصورة باطلة الإجماع, ولا يصح البيع فيها عند أحد, إلا ما حكاه الحافظ في الفتح عند يزيد بن أبي حبيب , أنه يقول بجواز هذه الصورة أيضا, وأما سائر أهل العلم ومنهم الحنفية فيقولون بعدم جوازه لحيث بر الباب , ولكونه بيعا وشرطا… الخ

 والصورة الثالثة: أن يقع البيع مطلقا, ولا يشترط فيه قطا ولا ترك , فہذہ  الصورة محل خلاف بين الأئمة, فقال مالك والشافعي وأحمد: البيع فيها باطل, كما في الصورة الثانية, وقال أبو حنيفة رحمه الله: البيع فيها جائز كالصورة الأولى , ويجوز للبائع أن يجبر المشتري على قطع الثمار في الحال وإلى هذا المذهب يظهر جنوح البخاري….ولنا: أن صورة الإطلاق وهي الصورة الثالثة داخلة في الصورة الأولى في الحقيقة, لأنه إطلاق في اللفظ، فإن أمره البائع وجب عليه القطع في الحال، فكأنه قد شرط فيه القطع, وأما إذا لم يأمره بالقطع فلا يجب على المشتري أن يقطع الثمار, لا لأن القطع ليس بمقتضى البيع، بل لأن البائع قد تساهل في أمره, فصار كأنه باع بشرط القطع ثم تساهل ولم يأمره بالقطع , فلا فرق بين الصورة الأولى والثالثة في المال.

 3- حكم البيع بعد بدو الصلاح:

وأما بیع الثمار بعد بدو صلاحها فله صور ثلاثة أيضا, الأولى: أن تباع بشرط القطع, والثانية: أن تباع بشرط تركها على الأشجار, والثالثة: أن تباع مطلقا, فالشافعي ومالك وأحمد رحمهم الله يجوزون البيع في الصور الثلاث كلها, فإن باعها مطلقا استحق المشتري الإبقاء أوان الجذاذ كحالة شرط الإبقاء, كما في نهاية المحتاج, والمغني لابن قدامة…الخ

وأما أبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله تعالى فقالا: يجوز البيع بشرط القطع وفي صورة الإطلاق, ويفسد بشرط الترك, ويجب على المشتري في صورة الإطلاق أن يقطعها إذا طالب به البائع. أما محمد بن الحسن رحمه الله ففضل المسألة وقال: لو كان البيع بشرط الترك بعد ما تناهی عظم الثمار جاز البيع استحسانا للعرف, ولو لم يتناه عظمهما فسد بشرط الترك…. الخ

وخلاصة هذا المبحث ما ذكره ابن الهمام أنه لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر , ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح بشرط الترك, ولا في جوازه قبل بدو الصلاح أو بعده بشرط القطع, لكن بدو الصلاح عندنا أن تأمن العاهة والفساد, وعند الشافعية ظهور النضج والحلاوة, والخلاف إنما هو في بيعها قبل بدو الصلاح لا بشرط القطع, فعند الشافعي ومالك وأحمد لا يجوز , وعندنا إن كان بحال لا ينتفع به في الأكل ولا في علف الدواب ففيه خلاف بين المشايخ, قيل: لا يجوز , ونسبه قاضي خان لعامة مشايخنا, والصحيح أنه يجوز , لأنه مال منتفع به في ثاني الحال إن لم يكن منتفعا به في الحال, وقد أشار محمد في كتاب الزكاة إلى جوازه , وهناك خلاف أيضا في بيعها بعد بدو الصلاح بشرط الترك, فعند الأئمة الثلاثة يجوز , وعند أبي حنيفة وأبي يوسف لا يجوز , وقال محمد: إن تناهی عظمها جاز البيع, وإن لم يتناه لم يجز.

أما مسألة بيع الثمار في حد ذاتها فإن لهذا البيع صورا مختلفة:

 1- أن تباع الثمار قبل ظهورها, وهذا لم يقل جوازه أحد, سواء جرى به التعامل أو لا, والمراد من الظهور انفراك الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت , كما ص رح به ابن عابدين في رد المحتار, ولا ينعقد هذا البيع س لما لفقدان شرائطه من كون المبيع موجودا من حين العقد إلى تسليم المبيع, ومن کون المبيع معلوم القدر , وكون الأجل معينا, وغير ذلك.

 2- أن تباع سائر ثمار الشجر أو البستان في حين ظهر بعضها ولم يظهر بعضها, وفيه خلاف بين مشايخنا الحنفية , فظاهر المذهب أنه لا يجوز أيضا, ولكن أفتی شمس الأئمة الحلواني رحمه الله بأنه لو كان الخارج أكثر جاز البيع في الجميع, وبه أفتى الإمام الفضلي: بل يظهر من عبارته أنه لا يشترط کون الخارج أكثر, بل يجعل الموجود أصلا في البيع, وما يحدث بعد ذلك تبعا له…. الحاصل أن هذه الصورة وإن كانت غير جائزة في أصل المذهب, غير أن فيها سعة عند عموم البلوى.

 3- أن تظهر جميع الثمار بمعنى انعقادها ثمرة, ولكنها غير منتفع بها في الأكل ولا في علف الدواب, وفيه خلاف أيضا بين مشايخنا الحنفية , فذكر قاضي خان أن بيعها لا يجوز عند عامة المشايخ, ولكن صحح ابن الهمام جوازه كما أسلفنا عن الفتح.

4- أن تكون الثمار منتفعا بها في الأكل أو علف الدواب , فبيعها جاز بإجماع الفقهاء على الخلاف المار بينهم فيما بدا صلاحه أو لم يبد.

وأما مسألة اشتراط الترك على الأشجار فيما صح بيع الثمار فيه, فله صورتان:

 1- أن تباع الثمار بعد ما تناهی عظمها وبدا صلاحها, فشرط الترك في هذه الصورة جائزة عند محمد رحمه الله, وبه أفتى كثير من المشايخ لعموم البلوى, واختاره الطحاوي وإليه مال ابن الهمام وابن عابدين, كما ورد في رد المحتار و ففي هذه الصورة سعة أيضا عند عموم البلوى.

 2- أن تباع الثمار قبل بدو صلاحها أو تناهی عظمها, فشرط الترك في هذه الصورة مفسدة بالإجماع, ولكن إذا لم يشترط الترك في العقد, بل كان العقد مطلقا, ثم أذن البائع بالترك طاب للمشتري المبيع وما زاد بعده عند الحنفية, وإن تركها بغير إذن البائع

جاز البيع وتصدق بما زاد بعد العقد كما في الهداية والدر المختار.

وفي فقه البيوع للشيخ محمد تقي العثماني حفظه الله تعالي (1/ 327، 326)

 أما إذا ظهر الثمر بحيث يمكن الإنتفاع به في الأكل، أو علف الدواب زها بيعه بالاتفاق. وإذا ظهر الثمر و لكنه غير منتفع به، حتى في علف الدواب، ففيه خلاف مشایخ الحنفية. فذكر قاضی خان عن عامة المشايخ أنه لا يجوز بيعه أيضا ، ولكن صحح ابن الهمام أنه يجوز، لأنه مال منتفع به في ثانی الحال، وإن لم يكن منتفعة به في الحال. و يبدو أنه مذهب الأئمة الثلاثة أيضا، حيث أجازو بیع الثمرة قبل بدو ص لاحها مطلقا (إذا كان بشرط القطع) ولم يشترطوا كونه منتفعة به.

وان بیعت جميع اثمار الشجر او البستان في حين ظهر بعضها ولم يظهر بعضها، ففيه خلاف. فقال الشافعية والحنابلة أنه لا يجوز البيع الا ماظهر. و هو ظاهر مذهب الحنفية، لان ما لم يخرج معدوم۔ ولكن افتي شمس الائمة الحلواني : بانه لو كان الخارج اکثر، جاز البيع، وبه افتي الامام الفضلي، بل يظهر من عبارته انه لويشترط كون الخارج اکثر، بل يجعل الموجود اصلا في البيع، وما يحدث بعد ذالك تبعا له. وبه افتي ابن نجیم رحمه الله تعالي في فتاواه

 وفي شرح فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي (14/ 264):

( قوله ومن باع ثمرة لم يبد صلاحها ) لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ، ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح بشرط الترك، ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به ، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح ، لكن بدو الصلاح عندنا أن تأمن العاهة والفساد .

وفي كتاب المعايير (1/ 33):

1 / 8 / 7 يجوز الحصول على الضمان في المزايدات أو المناقصات ويشمل ذلك المبالغ التي تقدم عند الاشتراك فيها (الضمان النقدي الابتدائي ) والتي تقدم عند رسوها على الفائز بها ( الضمان النقدي النهائي ) وهذه المبالغ أمانة لدى الجهة الطارحة للمزايدة أو المناقصة وليست عربونا، وتضمن بخلطها بغيرها، ولا تجوز مصادرتها إلا بقدر الضرر المالي الفعلي. ويجوز استثمارها لصالح العميل بموافقته.

2 / 8 / 7 يجوز أخذ مبلغ من العميل الواعد بالشراء لتوثيق وعده إذا كان الوعد ملزما للعميل، ويسمى ( هامش الجدية )، وهو أمانة وليس عربونا لعدم وجود العقد، وتطبق عليه الأحكام المبينة في البند 1 / 8 / 7 ، ولا يؤخذ منه عند النكول إلا مقدار الضرر الفعلي، وهو الفرق بين التكلفة وثمن البيع للغير.

 وفي بحوث في قضايا فقهية معاصرة ( 122/ 2 ):

وقد يطالب المشتري في اتفاقيات التوريد بمبلغ عند التوقيع على الاتفاقية ، وذلك ضمانا لجديته في الشراء ، وتيسيرا على البائع للحصول على المبيعات المطلوبة ، وإن هذا المبلغ ليس عربوا على أساس التكييف الفقهي الذي ذكرناه وذلك لأن اتفاقية التوريد ليس ت عقدا بائا ، وإنما هي مواعدة لإنجاز العقد في المستقبل…. ولكنه يكون أمانة عند البائع وإن خلطه بماله أو صرفه ، فإنه يكون مضموا عليه بكامله . نعم إذا تخلف الواعد بالشراء عن وعده بدون عذر مقبول ، وحمله الحاكم تعويضا عن الضرر الفعلي الذي أصاب الفريق الآخر بتخلفه ، فإنه يجوز أن تقع المقاصة بين ضمان الجدية وبين التعويض المفروض على الواعد بالشراء ، فإن كان التعويض المفروض من الحاكم أقل من المبلغ المدفوع ضمانا للجدية ، رد الواعد بالبيع ما بقي ، وإن كان التعويض المفروض أكثر ، دفع الواعد بالشراء ما زاد على ضمان الجدية .

واللہ تعالي اعلم بالصواب

محمد عاصم عصمه الله تعالی

دارالافتاء جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو

۰۹/ شعبان معظم /۱٤۳٩ھ

۲۹/ اپریل /۲۰۱۸ء

پی ڈیا یف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/577247222644527/

اپنا تبصرہ بھیجیں