قبضہ سے پہلے مبیع کو بیچنے اور بیع سلم میں فرق

فتویٰ نمبر:629

 سوال : ایک چیز میں نے ابھی خریدی نہیں یعنی ابھی تک میں اس چیز کا مالک نہیں ہوا تو اس کو بیچنا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر جائز نہیں تو پھر بیع سلم کیسے کی جاتی ہے؟ کن چیزوں میں بیع سلم ہوتی ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب 

 اصل حکم تو یہی ہے کہ جو مال اپنے پاس موجود نہیں، اس کی فروخت بھی جائز نہیں، البتہ ایک صورت حدیث میں مذکور ہونے کی وجہ سے اس سے مستثنی ہے، جس کو ”بیعِ سلم“ کہتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ دام تو آج نقد وصول کرلئے اور چیز کچھ عرصہ کی مہلت پر دینی طے کرلی، ایسا سودا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

   1-جنس معلوم ہو (مثلاً: کپاس کا سودا ہوا)۔

 2-نوع معلوم ہو (مثلاً: دیسی وغیرہ)۔

  3- صفت معلوم ہو (مثلاً: اعلیٰ قسم، یا متوسط یا ادنیٰ)۔

  4- اس کی مقدار معلوم ہو (مثلاً: اتنے ٹن) 

ان چار شرطوں کا تعلق مال کی تعیین سے ہے کہ جس چیز کا سودا ہو رہا ہے اس میں کوئی اشتباہ نہ رہے۔

   5- ادا شدہ رقم کی مقدار متعین ہو۔

 6-جن چیزوں پر حمل و نقل کے مصارف اُٹھتے ہیں، ان میں یہ بھی طے ہوجانا چاہئے کہ وہ مال فلاں جگہ مہیا کیا جائے گا۔

    7-جانبین کے جدا ہونے سے پہلے مجلسِ خرید و فروخت میں پوری رقم ادا ہوجانا۔

   اگر ان سات شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو بیعِ سلم فاسد ہے۔

“و من اشتری شیئا مما ینقل و یحول لم یجز لہ بیعہ حتی یقبضہ “

(المختصر للقدوری ،73)

” و لا یصح السلم عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ الا بسبع شرائط تذکر فی العقد جنس معلوم و نوع معلوم و صفۃ معلومۃ و مقدار معلوم و اجل معلوم و معرفۃ مقدار راس المال…… و تسمیۃ المکان الذی یوفیہ فیہ اذا کان لہ حمل و مؤنۃ”

(المختصر للقدوری-75،76)

واللہ اعلم بالصواب

اہلیہ محمود الحسن

صفہ آن لائن کورسز 

2 جمادی الاخری 1438 ھ 

2 مارچ 2017 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں