قادیانی والدین کی خدمت

سوال: میرے سسر قادیانی ہیں میرے شوہر کا کہنا ہے کہ میں اپنےوالد کو غلط سمجھتا ہوں لیکن انہیں اس عمر میں اکیلا نہیں چھوڑسکتا ہم ساتھ رہتے ہیں میری ساس نہیں ہیں۔ اس صورت میں قادیانی کے ساتھ رہنے کا کیا حکم ہوگا یا ہم گناہ گار ہوں گے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

والدین کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں اولاد پر والدین کا حق ہے کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔

البتہ اگر والدین کسی نافرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

مذکورہ صورت میں شوہر حسنِ سلوک کرتے ہوئے والد صاحب کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔

البتہ دوسری جانب شوہر کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر گنجائش ہو اور عورت اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہوتو اسے الگ گھر لے کر دے، ورنہ کم از کم کوئی ایک کمرہ ایسا ہوکہ جس کا بیت الخلا اور باورچی بالکل الگ ہو۔بات خراب ہوتی بھی وہاں ہے جہاں حقوق کی ادائی میں توازن نہیں رکھا جاتا۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر اپنے قادیانی سسر کے ساتھ رہنے میں عقائد کی خرابی کا اندیشہ ہے تو پھر مذکورہ بالا اصول کے مطابق شوہر سے اپنی رہائش یا کمرہ الگ کرنے کا مطالبہ کریں،اگر شوہر کوتاہی کرے تو وہ گناہ گار ہوگا،البتہ اگر عقائد کی خرابی کا اندیشہ نہیں تو پھر ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،مگر قادیانی مذہب کی نفرت دل میں باقی رکھی جائے گی۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ: ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت کی ہے ، اور اگر والدین کی طرف سے تمہیں میرے ساتھ شرک پر مجبور کیا جائے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے تو تم ان کی اطاعت مت کرو، میری طرف ہی تم نے لوٹنا ہے، تو میں اس تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دونگا۔[العنكبوت : 8].

 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَىَّ أُمِّي وَهْىَ مُشْرِكَةٌ، فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ ‏{‏إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ‏}‏ وَهْىَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّي قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ ‏”‏‏.‏(كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها).

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : “میرے پاس میری والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشریف لائیں ، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : میری والدہ میرے پاس آئیں ہیں اور وہ مجھ سے کافی محبت کرتی ہیں، تو کیا میں صلہ رحمی کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں ، اپنی والدہ کیساتھ صلہ رحمی کرو)”

بخاری: ( 2477 ) مسلم 🙁 1003 ).

کفایت المفتتی میں ہے:

اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہیئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے، اور قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا رکھنا خطرناک ہے۔

(ج1، ص325، دارالاشاعت)

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں