قصہ بحیرا راہب کی صحت پر اعتراض کا جواب

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۳۰﴾

سوال:.   سیرت کی کتابوں میں بحیرا راہب کا جو واقعہ مذکور ہے وہ سنداًدرست ہے؟

جواب:-  آنحضرتﷺ جب بارہ سال کے ہوئے تو اپنے تایا ابو طالب کے ساتھ  ملک ِشام کے سفر میں  ساتھ گئے۔بصریٰ (شام کے علاقہ ) میں بحیرا راہب نے آپﷺ کو پہچان لیا کہ نبی موعود یہی نوجوان ہیں۔تایا سے کہا اسے یہودیوں کے ملک میں نہ لے جاؤ، وہ اسے پہچان کر کہیں نقصان نہ پہنچائیں ۔ شفیق تایا نے آنحضرتﷺ کو بصریٰ ہی سے واپس کردیا۔

یہ روایت اختصار اور تفصیل کے ساتھ سیرت کی اکثر کتابوں میں اور بعض کتبِ حدیث میں بھی مذکور ہے۔اس قصہ کا سب سے محفوظ طریقہ سند وہ ہے جس میں عبد الرحمن بن غزوان جو ابو نوح قراد کے نام سے مشہور ہے، ا ن سے نقل ہے کہ وہ یونس ابن اسحاق سے اور وہ ابو بکر بن ابی موسیٰ سے اور وہ اپنے والد ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کرتے ہیں۔

یہ قصہ اس سلسلہ سند کے ساتھ جامع ترمذی، مستدرک حاکم، مصنف ابن ابی شیبہ،دلائل ِ بیہقی اور دلائل ابی نعیم میں مذکور ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي بَدْءِ نُبُوَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔ حدیث رقم 3620)

غرابت کسی روایت کے ضعف کے مترادف نہیں۔

حاکم ؒنے مستدرک میں اس واقعے کو نقل کرکے لکھا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ہے (مستدرک : ج2/ص615)

“هذا حديث صحيحٌ على شرط الشَّيخين”

حافظ عسقلانی ؒ ”الاصابۃ“ میں فرماتے ہیں:

اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور صحیح بخاری کے راوی ہیں اسی طرح عبد الرحمن بن غزوان بھی رواۃ بخاری میں سے ہیں۔ائمہ حدیث اور حفاظ کی ایک جماعت نے ان کو ثقہ بتایا ہے۔

تاہم حافظ ذہبی ؒ دیگر محدثین کے برخلاف اس روایت کو موضوع سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مما يدل على بطلان هذا الحديث قوله “وبعث معه أبو بكر بلالاً” وبلال لم يخلق بعد وأبو بكر كان صبياً 

اس قصے کے غلط ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ ”ابوبکر نے بلال کو آپﷺ کے ساتھ کردیا“حالانکہ حضرت ابوبکر ؓ اس وقت بچے تھے ،حضرت بلال پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

ان  کی اس عبارت  سے معلوم ہوا  کہ وہ روایت  کے الفاظ ”وبعث معہ ابو بکر بلالا“کی وجہ سے  اس قصہ  کی صحت  کا انکار کرتے ہیں ۔ لیکن اکثر حضرات اس کی شہرت کی وجہ سے اس کو موضوع نہیں کہتے۔

امام بیہقیؒ فرماتے ہیں: ”یہ واقعہ اہلِ مغازی کے ہاں بہت مشہور ہے۔“ 

علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ”الخصائص الکبری“میں اس واقعے کے شواہد ابنِ سعد، ابنِ عساکر، بیہقی اور ابنِ نعیم کے حوالے سے نقل کیے ہیں۔ بعض محدثین نے تصریح کی ہے کہ روایت کا یہ قابل اعتراض حصہ اضافہ ہے یعنی غیر محفوظ ہے۔ان محدثین  میں حافظ ابنِ کثیرؒ، جزریؒ اور حافظ زرکشیؒ وغیرہ  جیسے بڑے محدثین  بھی شامل ہیں۔

“قال الحافظ ابن كثير في “الفصول” (ص: 57): ”الحديث له أصلٌ محفوظ، وفيه زيادات“

وقال الجزَرِيُّ كما نقل عنه المباركفوري في ”تحفة الأحوذي“(10/ 66) : ”إسنادُه صحيحٌ، ورجاله رجال الصحيح، أو أحدهما، وذِكْرُ أبي بكرٍ وبلالٍ فيه غيرُ محفوظ، وعدَّه أئمتنا وَهْمًا“

والحافظ الزركشيُّ في “الإجابة” (ص: 53) فإنه ادَّعى أن ذِكْر أبي بكر وبلالٍ مدرَجٌ في الحديث، وتبعه السيوطيُّ في “الخصائص الكبرى”  (1/ 84) وانتهى إلى تصحيح الحديث بشواهده

”فتح الباری“ کتاب التفسیر میں حافظ فرماتے ہیں :

 ترمذی کی حدیث کی سند قوی ہے ،بظاہر منشاءِ وہم ایک دوسری روایت معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ ابنِ عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (20) سال کی عمر میں شام کا ایک سفر فرمایا۔اس سفر میں ابو بکر رضی اللہ  عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے ۔ابو بکر ؓ کی عمر اس وقت (18) سال کی تھی۔ اس سفر میں بھی بحیرا راہب سے ملاقات ہوئی اس روایت کو حافظ ابنِ مندہ اصبہانی نے ذکر کیا ،سند اس کی ضعیف ہے۔

حافظ عسقلانی “اصابہ” میں فرماتے ہیں :

اگر یہ روایت صحیح ہے تو آپ کا یہ سفر شام کے اس سفر کے علاوہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے راوی کو اس روایت سے اشتباہ ہوا اور دونوں قصوں کے متقارب ہونے کی وجہ سے قصہ میں غلطی سے ابو بکر کا ذکر کیا گیا۔(الاصابہ :ج1/ص177)

وأخرج ابن منده من تفسير عبدالغني بن سعيد الثقفي أحد الضعفاء المتروكين بأسانيده عن ابن عباس أن أبا بكر الصديق صحب النبي صلى الله عليه وسلم وهو بن ثمان عشرة سنة والنبي صلى الله عليه وسلم بن عشرين وهم يريدون الشام في تجارة حتى إذا نزل منزلا فيه سدرة قعد في ظلها ومضى أبو بكر إلى راهب يقال له بحيرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

البتہ  جہاں تک حضرت بلا ل کے ساتھ بھیجنے کا تعلق ہے تو مسند بزار میں بجائے ”بلال“کے ،”رجلا“ کا لفظ مذکور ہے (زاد المعاد:ج1 ص17)

رواه البزار، عن الفضل، عن قُرادٍ بلفظ: “وبعث معه عمُّهُ رجلاً” كما أفاده ابنُ القيِّمؒ۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس قصہ کے راوی ابو موسی اشعری بوقتِ واقعہ موجود نہیں تھے۔تو ابو موسی اشعری صحابی ہیں۔ اور صحابی کا ایسی روایت کو روایت کرنا جس میں وہ خود موجود نہ ہو مرسلِ صحابی کہلاتا ہے۔ اور مرسلِ صحابی بالاتفاق معتبر، مستند اور حجت ہے۔

الحاصل قصہ بحیرا راہب حضرت بلال اور حضرت ابوبکر کے ذکر کے بغیر صحیح ہے ، علماء کی اکثریت نے اس قصے کی تائید کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله تعالیٰ اعلم

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں