قنوت نازلۃ کب پڑھی جائے؟

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ قنوت نازلہ جو ایک دعا ہے،احناف کے نزدیک فقط صلوۃ الفجر میں پڑھی جائے گی۔ تو کیا کوئی انفرادی طور پر پڑھ سکتا ہے شام کے موجودہ صورتحال کے لیے؟یا گروپ کی شکل میں بغیر نماز کے مل کر پڑھ سکتے ہیں ؟

بنت حسان

اسلام آباد

فتویٰ نمبر:291

الجواب حامدۃ ً و مصلیۃً ًو مسلمۃً

قنوت نازلہ امت کے مصائب اور آلام کے وقت میں پڑھنا مسنون ہے، جب مصائب اجتماعی اور شدید ہوں ،مثلاً: مسلمان، کافروں کے پنجے میں گرفتار ہوجائیں یا اسلامی ملک پر کافر حملہ آور ہوں یا کوئی وبائی مرض پھیل جائے تو نمازِ فجر کی جماعت میں دُوسری رکعت کے رُکوع کے بعد امام “قنوتِ نازلہ” پڑھے اور مقتدی آمین کہتے جائیں،سنتوں میں یا تنہا ادا کئے جانے والے فرضوں میں قنوتِ نازلہ نہیں پڑھی جاتی۔

جہاں تک سوال میں مذکور صورت:یعنی بغیر نماز کے تنہا یا جماعت کی صورت میں قنوت نازلہ پڑھنے کا تعلق ہے،اس طریقے سے پڑھنے کا ذکر نہ حدیث میں ہے اور نہ سلف صالحین سے اس بارے میں کوئی صراحت ملتی ہے۔لہٰذا بہتر یہ کہ جب بھی امت پر ایسے حالات آئیں تو قنوت نازلہ تو نماز فجر میں پڑھی جائے جیسا کہ مسنون ہے اور انفرادی طور پر قنوت نازلہ کے بجائے نماز پنجگانہ کے بعد دعاؤں کا اہتمام کیا جائے ۔آیتِ کریمہ ، توبہ و استغفار اور اسی طرح ” اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِک مِنْ شُرُوْرِهِمْ” جیسی مسنون دعاؤں کا کثرت سے ورد کیا جائے۔

” عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہراً بعد الرکوع في صلاۃ الصبح، یدعو علی رعل وذکوان، ویقول: عصیۃ عصیت اللّٰہ ورسولہ۔ “

(صحیح البخاري رقم: ۴۰۹۴، صحیح مسلم رقم: ۶۷۷، بحوالہ حاشیۃ: إعلاء السنن ۶؍۹۵ رقم: ۱۷۱۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

“وأما القنوت في الصلاۃ کلہا للنوازل، فلم یقل بہ إلا الشافعيؒ، وکأنہم حملوا ما روی عنہ علیہ الصلاۃ والسلام، أنہ قنت في الظہر والعشاء، کما في المسلم، وأنہ قنت في المغرب أیضا، کما في البخاري علی النسخ۔”

(شامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، زکریا ۲/ ۴۴۹، مصري قدیم ۱/ ۶۲۸، کراچی ۲/ ۱۱)

“وأما عند النوازل في القنوت في الفجر۔”

(منحۃ الخالق مع البحر الرائق ۱؍۴۵)

“وإن نزل بالمسلمین نازلۃ قنت الإمام في صلاۃ الجہر۔”

(شامي ۲؍۴۴۹ زکریا، البحر الرائق ۲؍۴۴)

“قال الحافظ أبوجعفر الطحاوي: لایقنت عندنا في صلاة الفجر من غیر بلیة، فإن وقعت فتنة أو بلیة فلا بأس بہ، وأما القنوت في الصلوات کلہا للنوازل، فلم یقل بہ إلا الشافعی، وکأنہم حملوا ماروی عنہ علیہ السلام، أنہ قنت في الظہر والعشاء کما فی مسلم“، وأنہ قنت فی المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم وردد المواظبة التکرار الواردین في الفجر عنہ – علیہ الصلاة والسلام ۔”

(في شرح المنیة :۳۶۴)

فقط۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت ممتاز غفرلھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر ،کراچی

19-6-1439ھ/ 6-3-2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں