قرآن اٹھا کر الفاظ قسم بولے بغیر غلط بیانی کرنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاته ۔

ایک شخص نے کسی جگہ جان کے خطرہ میں جھوٹ پہ قرآن اٹھا لیا، اب اس پہ پریشان ہیں کہ کیا کریں؟

تنقیح:

• “جان کو خطرہ” کا کیا مطلب؟

• واقعہ کیا تھا؟

• صرف قرآن اٹھایا یا باقاعدہ قسم کے الفاظ بھی بولے؟ وضاحت کریں۔

جواب تنقیح:

واقعہ یہ تھا کہ وہ لڑکا کسی لڑکی کے گھر گیا، ابو اور چاچو نے سختی سے پوچھا کہ وہاں گیا یا نہیں اور غصے میں پستول نکال لیا، اس نے کہا نہیں گیا تو ابو نے کہا قرآن اٹھا کے بولو نہیں گیا تو اس نے کہا قرآن اٹھا کے کہتا ہوں نہیں گیا، اس جھوٹ پہ قرآن اٹھا لیا اسکے علاوہ کوئی قسم کے الفاظ نہیں بولے۔

الجواب باسم ملہم الصواب

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محض قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کے قسم کھانے والا زبان سے الفاظ ادا نہ کرے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں کہ فلاں کام نہیں کیا۔

البتہ مذکورہ لڑکا نے جھوٹی قسم کو چھوڑ کر کئی گناہوں کا ارتکاب کیا:

۱۔ والد کی نافرمانی

۲۔ ایک غیر لڑکی کے گھر جانا

۳۔ والد کے سامنے جھوٹ بولنا۔

لھذا اس لڑکے پر لازم ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے پر سچی توبہ کرے اور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہے۔

= = = = = = =

• ( والقسم بالله تعالى ) ( وباسم من أسمائه ) ولو مشتركا تعورف الحلف به أو لا على المذهب ( كالرحمن والرحيم ) والحليم والعليم ومالك يوم الدين والطالب الغالب ( والحق ) .

( أو بصفة ) يحلف بها عرفا ( من صفاته تعالى ) صفة ذات لا يوصف بضدها ( كعزة الله وجلاله وكبريائه ) وملكوته وجبروته ( وعظمته وقدرته ) أو صفة فعل يوصف بها وبضدها كالغضب والرضا ، فإن الأيمان مبنية على العرف ، فما تعورف الحلف به فيمين وما لا فلا .( لا ) يقسم ( بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة ) قال الكمال : ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا .

وأما الحلف بكلام الله فيدور مع العرف.وقال العيني : وعندي أن المصحف يمين لا سيما في زماننا .[رد المحتار: ج ۱۴، ص ۱۴]

• محض قرآن سر پر رکھنا جب تک لفظ قسم زبان سے نہ کہے، قسم نہیں۔ (امداد الاحکام، ۳/۲۵۰)

واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں