قربانی ہماری بقاء

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم،  امّابعد!

 وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ  مِّنْ  م  بَھِیْمَۃِ  الْاَنْعَامِ ط فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِد’‘ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْن                                        (سورۃ الحج : آیت ۳۴،پارہ ۱۷)

قربانی کا طریقہ ہر نبی کو دیا گیا:      

                میرے محترم دوستو اور بزرگو ! اللہ نے ہمیں اپنے قرب کے، اپنے تک پہنچنے کے جو راستے بتائے ہیں، ان میں بعض راستے اور بعض طریقے ایک اُمت کو عطا فرمائے اور دوسری اُمتوں کو دوسرے راستے سکھائے اور ان کو وہ راستے اور طریقے نہیں سکھائے جو پہلی اُمت کے لیے تھے اور تیسری امت کے لیے تیسرا حکم دیا۔ غرض ہر اُمت کو مختلف مختلف راستے بتائے ۔مگر بعض طریقے اور بعض راستے ایسے بھی ہیں اللہ تک پہنچنے کے لیے، کہ ان کی تعلیم ہر اُمت کو سکھائی، کوئی اُمت ایسی نہیں کہ اس کو یہ طریقہ نہ بتایا ہو ہر دین ہر مذہب ہر نبی ﷺ کو وہ طریقہ دیا، اس طریقہ کو اپنا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا اور ہر ہر نبی ﷺ کو تعلیم دی کہ یہ طریقہ اپنی اپنی اُمت کوسکھلائیں کہ یہ ہم تک پہنچنے کا راستہ ہے۔

                 اس کو اللہ نے ارشاد فرمایا: لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکا ً(سورۃ الحج آیت ۶۷)

ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی کو رکھا ہے۔ دنیا میں کوئی اُمت کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ اللہ نے اس اُمت اور اس نبی کو قربانی کا طریقہ نہ دیاہو یہ عبادت عطا نہ کی ہو۔ اس سے معلوم ہواکہ یہ طریقہ اتنا قدیم ہے کہ حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر نبی کریم ﷺ تک، جتنے بھی انبیا ء کرام علیہم الصلوۃ والسلام آئے ہیں، سب کویہ طریقہ عطا کیا گیا۔

ہر کسی کو اپنی جان سے محبت ہوتی ہے:

                اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کایہ جو طریقہ قربانی کے نام سے کیا جاتاہے ایسا سکہ بند اور مہر لگا ہوا ہے کہ ہر ہر نبی علیہ السلام کو ملا ۔ہرہر نبی کی اس پر مہر موجود ہے۔ کوئی نبی بھی ایسانہیں کہ قربانی کے طریقہ پر اس کی مہر موجود نہ ہو۔ اللہ نے ہر نبی کو یہ طریقہ بتایا۔ ہر نبی نے اپنی اپنی اُمتوں کویہ طریقہ سکھلایا ۔ اسی کے بارے میں ارشاد ہے کہ  وِلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسکًا(حوالہ بالا)

                 لوگو! ہم نے یہ طریقہ کیوں دیا؟ اس کے دینے کا مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ تھا کہ لِیَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِاللہ کا نام یاد آجائے کہ اللہ نے جو جانور اور چوپائے عطا کیے ہیں، جب ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرو تو اللہ کاذکر کرو، اللہ کی بڑائی کے بول ان پر بولو۔ اللہ کی بڑائی کے بول ان پر بول کریہ سبق دوکہ ساری چیزیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ اللہ نے ہی یہ جانور دیے ہیں یہ اس ذات کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اتنا بڑا جانور اس نے ہمارے ماتحت کردیا، ہمارے تابع کردیا، ہمارے اتنے تابع کردیا کہ ہم اس کو لٹاکر اس پر چھر ی پھیرتے ہیں لیکن وہ جانور یہ نہیں کہتا کہ تم یہ کا م کیوں کررہے ہو، وہ اپنی جان قربان کرتا ہے، نچھاور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے انسان! ذرا سوچ لیا کرو کہ یہ جو تمہارے تابع ہے، یہ خودبہ خودتابع نہیں ہوا، آخراس کی بھی جان ہے، جس طرح تمہاری جان ہے، تم کہاں جان دینے کے لیے تیار رہتے ہوکہ جانور بھی تیار رہے (ہر ایک کو اپنی جان سے محبت ہوتی ہے) لیکن اللہ نے حکم دیا، اللہ نے تابع کیا تو کم از کم ذبح کرتے وقت اللہ کا بول بالا کرو، اللہ کی بڑائی بیان کرو ۔ بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبرکہہ کر یہ سبق لوکہ اے اللہ! اس جانور کو ہم تیرے نام پر ذبح کرتے ہیں۔ اے اللہ! بڑائی آپ ہی کے لیے ہے، آپ کے علاوہ کسی کے لیے نہیں۔ تواس طرح اللہ نے اپنے تک پہنچنے کا ذریعہ بتا دیا۔ ایک ذریعہ سے کتنی چیزیں طے کروادیں کہ جب جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا بول بولو گے، اللہ کی بڑائی کے گن گائو گے تو اللہ کی بڑائی اور عظمت تمہارے دل میں بیٹھ جائے گی۔

اﷲ کا نام استحضار کے ساتھ لیا جائے:

                 اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے وقت اللہ کا نام، اللہ کی عظمت کے استحضار سے لیا جائے۔ یعنی اس دھیان سے لیا جائے کہ اللہ کی عظمت دل میں بیٹھ جائے کہ واقعی اللہ ہی بڑے ہیں اور یہ حکم بھی اللہ ہی نے دیا۔ اس عظمت اور دھیان سے قربانی کے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہنا قربانی کی اصل روح ہے۔ مگر ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا سوچتے ہی نہیں اللہ کانام غفلت سے لیتے ہیں، اگرچہ غفلت سے اللہ کا نام لینا بھی عبادت سے خالی نہیں مگر اس میں وہ بات نہیں جودھیان اوریقین سے لینے میں ہے اور اپنی بڑائی کے ساتھ ساتھ عجیب سبق دیا۔ فرمایا:   وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ  مِّنْ م  بَھِیْمَۃِ  الْاَنْعَامِ ط فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّاحِد’‘ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ (سورۃ الحج : آیت ۳۴،پارہ ۱۷) 

جب تم اللہ کا نام لوگے ساتھ ساتھ یہ تصور آئے گا کہ یہ جانور تمہیں کس نے دیا اب لازمی با ت ہے انسان یہ سوچتا ہے کہ میں نے پیسے کمائے ہیں، میں نے رقم خرچ کی ہے مگر اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جانور اللہ نے تمہیں دیا ہے، اللہ کی عطا ہے۔ اگر اللہ یہ جانور نہ دیتے تو تم کیا کرلیتے گویا اللہ کادیا ہوا، اللہ کی راہ میں قربان کررہا ہوں، میرا کوئی کمال نہیں۔ اس یقین اور عقیدے سے اللہ کانام لیں گے کہ یہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے تو اللہ کے سارے احسانات یاد آجائیں گے۔ جانور خریدنے کے لیے رقم کس نے دی، جانور کو چارا اور پانی پلانے کے لیے کس نے دیا، جب یہ سارے احسانات یاد آئیں گے تو ان کو ماننے کی تو فیق ملے گی، اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملے گی۔ اس کے بعد فرمایا: ذرا سوچو کہ اللہ نے تمہیں یہ جانور دیا وہ ایک ہی ذات ہے جو دینے والی ہے ۔وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ (سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۳ پارہ ۲) 

تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اسی کا نام لو،اسی کے بارے میںسوچو۔

اﷲ کے سامنے جھکنے والوں کے لیے خوشخبری:

                مگر آج کا مسلمان، اللہ معاف کرے ذبح کے وقت بزرگ کا نام لیتا ہے جس بزرگ کو اللہ نے بلند مقام عطا فرمایا، سمجھتا ہے ان کے نام پر ذبح کروں گا تو ثواب مل جائے گا۔ اللہ نے اس بات کو ختم کردیا اور کہا کہ اس کے سواکسی اور کا دھیان دل میں لے کر نہ آئو، صرف اسی کو سوچو اسی کو معبود بناؤ۔

                 اس کے بعد فرمایا کہ اتنا بڑا جانور تمہارے تابع ہے، یہ کس نے کیا؟ اُونٹ جیسا جانور اگر کسی پر پاؤں رکھ دے تو وہ اٹھ نہ سکے، کسی کی گردن منہ میں دبالے تو کوئی چھڑانہ سکے۔ اتنا سرکش جانور تمہارے تابع کردیا فرمایا: تم نے کبھی سوچا کہ یہ جانور تو میرے تابع ہوگیا ،کیا میں اللہ کے تابع ہوں؟ اس لیے فرمایا: فَلَہ‘ٓ اَسْلِمُوْا (سورۃ الحج آیت ۳۴ پارہ ۱۷)

 اسی کے تابع ہوجائو۔ سوچیے اس میں کتنے سبق ہمارے لیے موجود ہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ اگر ہم مطیع ہوجائیں جس طرح یہ جانور ہمارے مطیع ہوگئے تو ہمیں کیا ملے گاتو فرمایا :  وَبَشِّرِ المخبتین،(سورۃ الحج آیت ۳۴ پارہ ۱۷)

 اللہ کے سامنے جھکنے والوں کے لیے خوشخبریاں ہیں۔

                ایک جانور ذبح ہواتو اللہ کی بڑائی وعظمت دل میں آئی، اللہ کی نعمتوں کا استحضارہوا، ساتھ ساتھ اپنی فرما نبرداری کاعہد بھی ہوا۔ اب ہر آدمی یہ کہے گا، میں فرمانبردار اور مطیع ہوں، مسلمان ہوں، لیکن صرف کہنے سے کام نہیں چلے گا (ورنہ ہرآدمی زبان سے تو یہ کہتا ہے)بلکہ اللہ نے اس کے لیے علامتیں مقرر کی ہیں۔ یہ علامتیں تمہارے اندر ہوںگی تو تم اپنے قول میں سچے ہو، یا اللہ! وہ علامتیں کیا ہیں؟ پہلی علامت یہ بیان فرمائی: اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْ بُھُمْ ( سورۃ الحج آیت ۳۵ پارہ ۱۷)

کہ وہ لوگ جب اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کے دل کا نپ جاتے ہیں۔ دل میں عجیب قسم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، یہ وہ آدمی ہے جو یہ کہہ سکتا ہے میں اللہ کا فرما نبردار ہوں۔ مگر یہ کہہ دینا کافی نہیں بلکہ فرمایا: والصبرین علی ما اصابھم (ایضاً) مصیبتوں پر صبر کرنے والے ہیں۔ جس طرح اس جانور پر مصیبت آئی، چھری پِیھرنا بھی مصیبت ہے، مگر اس نے صبر کیا تو اس کو صبر کرنے کا کیا بدلہ ملا، پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اللہ نے اس کے ریوڑ کے ریوڑ بنادیے۔ علماء اکثر مثال دیتے ہیں کتے اور دیگر حرام جانوروں میں قربا نی کا جذبہ نہیں تو اس کے ریوڑ بھی نہیں ہوتے۔ بکری،گائے وغیرہ میں قربانی کا جذبہ ہوتا ہے، حالانکہ یہ ایک وقت میں ایک ہی بچہ دیتی ہیں، بہت کم دوبچے پیدا ہوتے ہیں اور کتیا ایک وقت میں چھ چھ بچے پید اکرتی ہے، مگر اس کے باوجود تعداد دیکھ لیں کہ اللہ نے کس کی قوم کو بڑھایا۔ یہ صبر کا بدلہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اندر جب تک قربانی کا جذبہ رہیگا، اللہ اس اُمت کو باقی رکھیں گے (بلکہ اور بڑھائیں گے)۔ اگر یہ جذبہ ختم ہوجائے تو ایسی ہلا کتیں آئیں گی کہ تمہارانام ونشان مٹ جائے گا۔ اسلام کی بقاء چاہتے ہو تو قربانی سب سے بڑی دولت ہے۔ تو قربانی یہ سبق دیتی ہے کہ  وَالصّٰبِِرِیْنَ عَلٰی مَا اَصَابَھُمْکہ جو پریشانیاں آئیں، اللہ کی راہ میں ان پر صبر کریں۔ قربانی کااہم سبق ہے کہ اے اللہ! جس طرح یہ جانور تیری راہ میں قربان کررہاہوں اگر ضرورت پڑی تو اپنی جان بھی قربان کروں گا۔ جب یہ جذبہ پیدا ہوگا تو اللہ ان قوموں کو بقاء عطا فرمائیں گے ۔پھر  وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَا اَصَابَھُمْ  پربس نہیں کیا بلکہ فرمایا وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃَ نماز بھی قائم کرے۔ معلوم ہوا صرف قربانی ہی کمال کی بات نہیں (اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی نہ کریں بلکہ ضرور کریں) بلکہ نماز کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ جب جانور اللہ کے حکم کے آگے جھک گیا تو بندہ بھی اسی کے حکم کے آگے جھک جائے۔ معلوم ہوا قربانی کرنے والوں میں یہ سارے جذبات ہونے چاہئیں ۔

نیت کی درستگی کا اہتمام کریں:

                ایک کتاب میں عجیب واقعہ ملا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیجا کسی قوم کی طرف، مسلمانوں نے ان کو گرفتار کیا اور قتل بھی کیا جب ایک آدمی کو قتل کرنے لگے تو اس نے کہا میں اس قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں، میں تو ایک عورت کی محبت میں یہاں آیاہوں، لہٰذا مجھے کم از کم ایک دفعہ اس عورت کی زیارت کرنے دو تاکہ میرے لیے مرنا آسان ہوجائے۔ یعنی قربانی دینا آسان ہوجائے اس کو وہاں لے جایاگیا۔ اس نے عورت کو خطاب کرکے کچھ اشعار پڑھے پھر اس کو قتل کردیا گیا۔ تو عورتوں کے مجمع میں سے عورت نکلی اور اس پر تڑپ کرگری اوروہیںمرگئی، دنیا کے عشق کی خاطر انہوں نے جان دے دی۔ گویا مسلمانوں کو سبق دے دیا کہ اللہ کی محبت میں اس کی راہ میں قربانی دینا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔

                میرے دوستو! اللہ تعالیٰ کے حضور تو اپنی جان ہی دینی ہوتی، مگر اللہ کا فضل وکرم ہوگیا کہ جانورکو ہمارے قائم مقام کردیا۔

                 علماء کرام نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ جانور اس یقین سے ذبح کرے کہ آج اس کو ذبح کررہا ہوں، کل میں اپنی جان بھی دینے کو تیار ہوں تو اس کا بدلہ اپنی جان دینے کا ملے گا۔  یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے۔ قربانی اسی دھیان سے کریں، کتنا بڑا اجر ہے اس کا۔تو قربانی اللہ کی رضا کے لیے کریں، کبھی دکھلاوے کے لیے نہیں کریں۔ اپنی نیت خراب نہ ہونے دیں، بار بار نیت کا استحضار کریں ۔نیت دُرست کرتے رہیں اور دُعا کرتے رہیں کہ قربانی کی وجہ سے اللہ جو قرب کا مقام عطا فرماتے ہیں ہمیں بھی وہ عطا فرمادیں۔

                اے اللہ! ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما۔                     (آمین )

اپنا تبصرہ بھیجیں