قربانی کے معاشی اثرات

عبدالمنعم فائز

ہر سال جوں جوں قربانی کا موسم قریب آتا چلا جاتا ہے، توں توں عقلی موشگافیاں، ادبی نکتہ آفرینیاں اور گھسی پٹی منطق سنجیاں بھی عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے: اتنے جانور قربان کرنے کا کیا فائدہ؟ جانوروں کی ایک نسل کو نقصان پہنچتا ہے؟ لاکھوں بیٹیاں جہیز کے بغیر بن بیاہی بیٹھی ہیں اور انہیں قربانی کی سوجھی ہے؟ آپ نے ایک لاکھ کا بیل ذبح کیا اور اسی محلے کا ایک خاندان بھوک، افلاس اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کشی کرگیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ 

دو باتیں

بات حق اور انصاف کی کرنی چاہےے۔ یہ بھی ایک معاشرے کا کڑوا سچ ہے کہ قربانی کا جانور رفتہ رفتہ اسٹیٹس سمبل بنتا جارہا ہے۔ دس لاکھ کا بیل اور پانچ لاکھ کا بکرا ہر سال ہی خبروں میں جگہ بنالیتے ہیں۔ اسکردو اور گلگت کا یاک خریدا جاتا ہے اور چار سینگوں والے بکرے لےے جاتے ہیں۔ لڑکے بالے ان جانوروں کو گلی محلوں میں یوں لیے پھرتے ہیں جیسے ”مقابلہ حسن و دکھاوا” منعقد کیا جارہا ہو۔ ظاہر ہے لوگوں کو دکھانے کے لےے اتنا پیسہ خرچ کرنا اللہ کے دربار میں وزن نہیں پاسکتا۔ تفاخر، دکھاوا اور ڈھنڈورا تو سب کچھ راکھ کا ڈھیر بنادیتا ہے۔ 

مگر اگر کوئی شخص اللہ تعالی کو قربانی سے محبت دکھاتا ہے، اسی لےے مہنگا اور صحت مند جانور خریدتا ہے، تو اسے کوئی بھی برا نہیں کہہ سکتا۔ بارگاہ خداوندی میں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی لوگوں کے لےے یہ حکم ہے کہ اپنے قربانی کے جانوروں کو صحت مند بناؤ، پل صراط پر یہی تمہاری سواریاں ہوں گی۔ قربانی کو خانہ پری، سردردی اور وبال دوش سمجھنے کے بجائے بھرپور رغبت اور خوشی کا اظہار کرنے میں ہی تو خدا کی رضا مندی ہے۔ یہ دو باتیں پیش نظر رہیں تو بہت سے اشکالات دور ہوسکتے ہیں۔ 

آئینہ اور پس آئینہ :

کیا قربانی پر اعتراض کرنے والے ہر شخص نے اپنا اپنا معاشرتی فریضہ ادا کردیا ہے؟ کیا ان میں سے کوئی شخص اپنا مہنگا گھر فروخت کرکے سستے میں آیا اور غریبوں کی مدد کی؟ کیا کسی نے اپنا مہنگا موبائل، گاڑی اور گھڑی فروخت کرکے کسی نادار کی داد رسی کی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم قربانی کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھارہے ہوں؟ مگر اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے آئینہ اور پس آئینہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔

سرمایہ کاری کی غلام گردشیں، چکر اور گھن چکر:

جان مینارڈ کینز کو دنیا کا نمایاں ترین ماہر معیشت سمجھا جاتا ہے۔ آپ اگر برصغیر میں انگریز کی معاشی چیرہ دستیوں کا احوال پڑھنا چاہتے ہیں تو کینز ایک خاصے کی چیز ثابت ہوگا۔ دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کے معاشی نظریات پڑھائے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی بنت اسی کے نظریات پر مبنی ہوتی ہے۔ اس نے investment multiplier کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کا دعوی تھا کہ حکومت یا عام آدمی جب اپنی جیب سے چند روپے نکالتا ہے تو معیشت کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ ان چند رپوں کا فائدہ پورے معاشرے اور پوری معیشت تک پہنچتا ہے۔ کینز کے اس نظرےے کو مغربی نظریہ ”ویلفیئر اسٹیٹ” کی بنیاد بنایا گیا۔ اس نظریے کے مطابق عیدالاضحی نجانے کتنا بڑا investment multiplier ہے۔ جس کی برکت سے ایک دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری کی غلام گردشوں کا ایسا چکر ہے جس میں سراسر فائدہ غریب کا ہی ہے۔ 

کچرے کے ڈھیر سے بزنس کے پہاڑ تک :

ایک نظر خالص بزنس کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر فارمنگ انڈسٹری تیزی سے بڑھتی ہے۔ اس کے بعد کیٹل انڈسٹری کو عروج ملتا ہے۔ پھر لیدر انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ تین انڈسٹریز تو براہ راست اس سے متحرک ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار انڈسٹریز کو اس موقع پر فائدہ پہنچتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ابھی انڈسٹریز کو اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا۔ ورنہ ان جانوروں کی اون، ہڈیوں، چربی اور انتڑیوں سے ایسے ایسے بزنس وجود میں آسکتے ہیں، جن سے لاکھوں افراد کو مزید روزگار میسر آسکتا ہے۔ حکومت تھوڑی سی بھی دلچسپی لے تو جانوروں کی باقیات سے روزگار کے سیکڑوں مزید مواقع پیدا کےے جاسکتے ہیں۔ یقین جانےے جانوروں کی باقیات پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ان سے واٹر پروفنگ، آگ سلگانے، موم بتی بنانے، صابن اور کاسمیٹکس بنانے سے لے کر مختلف اجزاء میں ڈھالنے تک سیکڑوں ہزاروں پروڈکٹس بنائی جاسکتی ہیں۔ جن فضلات کو ٹھکانے لگانے اور شہر سے باہر ڈمپ کرنے پر ملک بھر کی میونسپلٹی اپنی توانائیاں جھونک دیتی ہے، ان کو کارآمد بناکر اربوں کے بزنس شروع کےے جاسکتے ہیں۔ بلاشبہ ان چیزوں سے اب بھی بے شمار اشیاء بنائی جارہی ہیں، مگر ذرا سی حکومتی توجہ اور تاجرانہ اپروچ اس کام کو ملک کی خوش حالی کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ پھر شاید وہ وقت آجائے جب کمپنیاں خود ہی تمام گھروں سے باقیات جمع کررہی ہوں اور کچرے کے ڈھیر سے بزنس کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہوں۔ 

امداد نہیں، روزگار:

آپ نے مشہور مقولہ سنا ہوگا: ”ہمیں ایڈ نہیں، ٹریڈ چاہےے”۔ غریبوں کو بھی امداد نہیں، باعزت روزگار چاہےے۔ قربانی کے جانور کون پالتا ہے؟ ان جانوروں کے چارے کا بندو بست کون کرتا ہے؟ سال بھر ان کی پرورش کا بکھیڑا کون پالتا ہے؟ مانتے ہیں کہ اب بڑے بڑے کاروباری گروپس بھی اس بزنس میں آگئے ہیں، مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائےے کہ غریبوں کی آمدنی کا اس سے بڑا کوئی ذریعہ ہے؟ کوئی ایسا عالمگیر ایونٹ نہیں، جس میں بے کس، نادار اور بے سہارا و بے آسرا افراد کو اتنے بڑے پیمانے پر روزگار مل رہا ہو۔ ہم بڑے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کراچی میں 30 ارب کے جانور بکتے ہیں تو اس کا بڑا حصہ غریبوں کی ہی جیب میں جاتا ہے۔ اگر کچھ بڑے کاروباری گروپس اس بزنس میں آئے بھی ہیں تو بھی پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں غریب اور پس ماندہ افراد ہی ان جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ 

رحمانی دائروں کا بابرکت سفر:

ایک لمحے کو تصور کی آنکھ کھولیے۔ دیکھئے! قربانی کا ایک جانور، پوری معیشت کا پہیہ گھما دیتا ہے۔ گندم کا ایک دانہ اپنے ساتھ کم ازکم 150لوگوں کا رزق لے کر اگتا ہے تو ایک بکرا یا بیل اپنے ساتھ سیکڑوں افراد کا رزق لےے پیدا ہوتا ہے۔ ٹھہرےے! بات بہت سادہ ہے۔ جب ایک غریب بکرے کو پالتا ہے تو اس کا چارا خریدنے دکان پر جاتا ہے۔ دکاندار وہ چارہ کسی ایجنٹ سے خریدتا ہے۔ ایجنٹ ، کسی کسان سے چارہ حاصل کرتا ہے۔ جانور بیمار ہوتو ڈاکٹر کو فیس دی جاتی ہے۔ پھر دوا خریدی جاتی ہے۔ جانور کو مویشی منڈی لاتے ہوئے ٹرک مالکان کا حصہ نکلنا شروع ہوتا ہے۔ پھر کرایہ پر جگہ خریدی جاتی ہے۔ کیمپ لگایا جاتا ہے، ڈیکوریشن اور چارہ پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ رسی، کیل کانٹے اور لکڑی کی صنعت میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ دیکھنے والے دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ ان کے آنے سے دکانیں آباد، پیٹرول پمپس پہ رش اور فوڈ سینٹرز پہ کھوے سے کھوے چھلتا ہے۔ صرف ماسک فروخت کرنے والے بچوں کا ہی اندازہ لگائیں۔ جب جانور بکتا ہے تو پھرتجارت کے اس رحمانی دائرے کا بابرکت سفرعروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک غریب خوش حال ہوجاتا ہے۔ سوزوکی یا مزدہ والے کو اس کا حصہ ملتا ہے۔ بکرا گھر آتا ہے تو بہت سے چہروں پر خوشی کھلکھلانے لگتی ہے۔ چارہ، دانہ دنکا اور خانساماں، رزق پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب عید کا دن آتا ہے۔ قصائی پہنچا۔ کھال اتری اور بکی۔ پوری لیدر انڈسٹری اس دن کی منتظر ہوتی ہے۔ کھال مدرسہ اور رفاہی ادارہ تک پہنچی۔ وہاں سے بک کر انڈسٹری میں پہنچی۔ صرف عید کے تین دنوں میں لیدر انڈسٹری کو اپنا 30 فیصد خام مال مل جاتا ہے۔ گوشت کٹا اور تقسیم ہوا۔ جس شخص کو سال بھر گوشت نصیب ہوتا، آج کے دن اس کے گھر بھی ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ نجانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس موقع پر غذائیت سے بھرپور گوشت جی بھر کے کھاتے ہیں۔ سال کے 360دن وہ اسی انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ اگلی عیدالاضحی کب آئے گی؟ یہ تو براہ راست فائدہ اٹھانے والے افراد ہیں۔ ورنہ بالواسطہ اور واسطہ در واسطہ یہ ایک اسلامی تہوار پوری دنیا کی معیشت میں ہلچل بپا کردیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں