قربانی کا فلسفہ

حضرت مفتی سعید احمد دامت برکاتہم العالیہ

خواب کی صورت اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے جگر گوشے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر اس وقت تک چھری چلاتے رہے جب تک اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا نہ آگئی ”اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔” حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جنت سے آیا ہوا مینڈھا ذبح کیا۔ اس واقعہ کی یاد میں حضور اکرمﷺ کی اُمت کے لےے بھی قربانی نہ صرف فرض کردی گئی بلکہ اسے اسلامی شعار بھی بنا دیا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسالت مآبﷺ نے فرمایا ”ذی الحجہ کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔” مزید فرمایا: ” قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔” حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ” جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔” اس سال عید الاضحی کے موقع پر وطن عزیز میں ان شاء اللہ 80 لاکھ جانور قربان کیے جائیں گے۔ تین روز تک جانور کی قربانی، گوشت کی تقسیم اور دعوتوں کی مصروفیات میں ہمیں بدقسمتی سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اور خدائی احکامات پر ان کے طرز عمل پر غور کرنے کا موقع کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ صاحبزادے کی قربانی کا واقعہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے زندگی کے ہر مرحلے پر اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی ہی عظیم ترین مثالیں پیش کی ہیں۔ جان، مال، ماں باپ، وطن، بیوی اور اولاد کسی کو حکم الٰہی پر ترجیح نہیں دی۔ قربانی کا اصل پیغام یہی ہے کہ انسان اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لےے ایک لمحے کی پس و پیش کے بغیر سب کچھ قربان کردے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں