رسائل اور کتابوں پر عورتوں کا نام لکھنے کی شرعی حثیت

سوال: اسلام میں کیا عورت کا نام لکھنا منع ہے؟خواتین کے بیانات کے اشتہارات میں،کتابوں کے رائٹر کے طور پر وغیرہ وغیرہ ۔مدلل جواب عنایت فرمائیں

سائل :محمد فراز

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ اسلام میں عورت کا نام لکھنا  نا جائز  تو نہیں ہے لیکن شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ عورت کے تمام معاملات کو پوشیدہ رکھا جائے  تاکہ کسی بھی قسم کی برائی جنم نہ لے   لہذا   خاتون  اپنے نام کے بجائے اپنے  والد یا شوہر کا نام لکھے تو یہ  زیادہ بہتر ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 350)

“وقال في تبيين المحارم: واعلم أن ما كان حراما من الشعر ما فيه فحش أو هجو مسلم أو كذب على الله تعالى أو رسوله – صلى الله عليه وسلم – أو على الصحابة أو تزكية النفس أو الكذب أو التفاخر المذموم، أو القدح في الأنساب، وكذا ما فيه وصف أمرد أو امرأة بعينها إذا كانا حيين، فإنه لا يجوز وصف امرأة معينة حية ولا وصف أمرد معين حي حسن الوجه بين يدي الرجال ولا في نفسه”

المبسوط للسرخسي (3/ 58)

“والتحرز عن مواضع التهمة واجب قال – صلى الله عليه وسلم -: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يقفن مواقف التهم» . وقال علي – رضي الله تعالى عنه – إياك وما يقع عند الناس إنكاره، وفي رواية ما يسبق إلى القلوب إنكاره، وإن كان عندك اعتذاره فليس كل سامع نكرا يطيق أن يوسعه عذرا”

(امداد الفتاوی۲۳۴)

“اسلام میں عورت کا نام لکھنا جائز تو ہے لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں مشہور و معروف ہے، اور یہاں ایسے عوارض کا وجود (بہ ظن غالب بلکہ) یقینی ہے اِس لیے ضرور اِس کو ناجائز کہا جائے گا”

(معارف القرآن۷/۱۴۳)

“اسی طرح قرآن کریم کے عام احکام میں اگرچہ مرد و عورت دونوں ہی شامل ہیں، مگر عموماً خطاب مردوں کو کیا گیا ہے، عورتیں اس میں ضمناً شامل ہیں ،ہر جگہ “یا ایہا الذین امنوا “کے الفاظ استعمال فرما کر عورتوں کو ان کے ضمن میں مخاطب کیا گیا ہے، اس میں اشارہ ہے کہ عورتوں کے سب معاملات تستر اور پردہ پوشی پر مبنی ہیں، اس میں ان کا اکرام و اعزاز ہے۔

خصوصاً پورے قرآن میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت مریم  بنت عمران کے سوا کسی عورت کا نام قرآن میں نہیں لیا گیا، بلکہ ذکر آیا تو مردوں کی نسبت کے ساتھ امراة فرعون، امراة نوح، امراة لوط کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے”

خطبات حکیم الامت ۲۳/۲۳۳

“عورت کا نام اور پتہ لکھنا  غیرت کے بالکل خلاف ہے ہمارے یہاں قصبات میں تو یہ رواج ہے کہ درزی سے  زنانے کپڑے نہیں سلواتے اور مرد دھوبی سے زنانے کپڑے نہیں دھلواتے  یہ نا جائز نہ سہی مگر غیرت اور شرم کی بات تو ضرور ہے اور غور فی النتائج  سے نا جائز بھی کہا جائے تو کیا بعید ہے اس سے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں “

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۲/۵/۱۴۴۱ھ

2020/1/18ء

اپنا تبصرہ بھیجیں