صدقہ میں میت کے نماز روزے کی نیت کرنا

سوال: استاد جی اس مسئلہ پر راہنمائی فرمائیں!

ایک شخص کی سالی کو طلاق ہوگئی تھی، مطلقہ کے پاس دو بیٹیاں تھیں، پھر مطلقہ نے چند سالوں بعد حالات سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔اس کی دونوں بچیاں نابالغ ہیں ابھی،بچیوں کا والد ہے، مگر وہ اس کے پاس نہیں رہنا چاہتیں اور واپس نانی کے پاس ہی رہ رہی ہیں، والد ان کا خیال بھی نہیں رکھتا۔وہ شخص اپنی مرحومہ سالی کی ان بیٹیوں پر ہر ماہ کچھ رقم خرچ کرتا ہے بطور صدقہ، مرحومہ نے اپنے نماز روزہ کے فدیہ کی وصیت نہیں کی تھی۔

سوال یہ ہے کہ یہ رقم جو اس مرحومہ کی بیٹیوں پر خرچ کی جاتی ہے،اسی رقم میں وہ شخص اپنی مرحومہ سالی کے نماز روزہ کے فدیہ کی ادائیگی کی نیت کر سکتا ہے ؟

تنقیح:کیا بچیوں کے والد مالدار ہیں؟

جواب تنقیح:جاب کرتے ہیں، باقی بہت زیادہ مالدار نہیں، ٹھیک ہے گزارا۔ مگر نہ بچیاں ان کے پاس رہنا چاہتی نہ وہ کوئی خاص توجہ کرتے۔

تنقیح ثانی: بچیوں کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں؟

جواب: جی

الجواب باسم ملہم الصواب

مرنے والے شخص نے اگر اپنی نماز،روزے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں،لیکن اگر کوئی شخص مرحوم کی طرف سے بغیر وصیت کے اس کی نماز روزے کا فدیہ ادا کردے تو یہ ان کی طرف سے نیکی اور احسان ہوگا۔

یہ بھی یاد رہے فدیہ کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں،یا جن کے پاس نصاب سے کم مال ہو۔

مذکورہ صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ بچیوں کے والد صاحبِ نصاب ہیں یا نہیں۔اگر صاحب نصاب نہیں ہیں تو پھر بچیوں پر خرچ کی جانے والی رقم پر فدیہ کی نیت کرسکتے ہیں، اور اگر والد صاحب نصاب ہیں تو اس صورت میں والد سے بچیوں کے نان نفقہ لینے کی کوشش کی جائے،اگر پھر بھی باپ بالکل ذمہ داری نہیں اٹھاتا،تو اس صورت میں فدیہ کی نیت سے رقم دی جاسکتی ہے۔

==================

حوالہ جات:-

1۔ وإن لم یوص لا یجب علی الورثۃ الاطعام؛ لانہا عبادۃ فلا تؤدی الا بامرہ وان فعلوا ذلک جاز، ویکون له ثواب۔

(شامي: فصل في العوارض، 408/3 زکریا)

2۔ وان لم یوص وتبرع عنه ولی او اجنبی جاز ان شاءالله تعالی۔

(مراقی الفلاح: کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، فصل فی اسقاط الصلاة والصوم، قدیم،238، جدید دارالکتاب دیوبند،438)

3۔مصرف الزکاة الخ وھو مصرف ایضاً لصدقة الفطر والکفارة والنذر وغیر ذالک من الصدقات الواجبة الخ وھو فقیر الخ ومسکین الخ ویشترط ان یکون الصرف تملیکاً لااباحة لایصرف الی بناء نحو مسجد ولا الی کفن میت الخ۔

(الدر المختار علی ھامش ردالمحتار باب المصرف:79/2، و 85/2.ط.س.2 /344۔339)

4۔ولایجوز دفعھا الی ولد الغن الصغیر،کذا فی التبیین۔ولو کان کبیراًفقیراً جاز،ویدفع الی امراة غنی اذا کانت فقیرة،وکذا الی البنت الکبیرة اذا کان ابوھا غنیاً؛ لان قدر النفقة لایغنیھا،وبغنی الاب والزوج لاتعد غنیة، کذا فی الکافی۔“

(فتاوی ہندیة:189/1)

5۔نابالغ غریب بچے کو تین صورتوں میں زکات دی جاسکتی ہے،بشرطیکہ بچہ سمجھ دار اور عقل مند ہو،مال پر قبضہ اور ملکیت کو سمجھتا ہو:

(1) بچے کا والد فقیر ہو۔

(2) بچہ یتیم ہو۔

(3) بچے کا والد اس کے نفقے کی ذمہ داری بالکل ادا نہ کرتا ہو۔

(ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن

فتوی نمبر :144208201484

فقط واللہ اعلم

28 جنوری 2022ء

24 جمادی الاخرة 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں