سپلائی آرڈر اور جبری کمیشن کا حکم

فتویٰ نمبر:548

سوال: آجکل سپلائی اور آرڈر   کے اکثر  معاملات میں  زبردستی  اور جبری  کمیشن کے کئی طریقے رائج   ہیں :

سیل  کرنے والی  کمپنی  کے سامان  میں کوئی  عیب نہیں ہوتا۔ وہ ہر چیز ایمانداری   سے دے رہا ہوتا ہے ۔ لیکن خریدار  کمپنی  /فرد  کے جو ملازم  ہوتے ہیں   وہ تین  طریقے  سے اس کی خریداری   میں اپنا کمیشن  بناتے ہیں   :

1۔۔۔خریداری  کا سودا   اگر ایک ہزار   میں بالفرض  طے ہوتا ہے  تووہ ملازم  سیل کرنے   والی کمپنی  /دکاندار  سے  یہ کہتا ہے  کہ آپ کا بل  گیارہ سو روپے  کا بنا  کردو ! سو روپے  ہمارا کمیشن  ہے ۔ آپ کو ہزار  روپے ملیں گے  ۔

2۔ چیز کا سودا  ہزار میں   طے  کرتا ہے  اور کہتا ہے   کہ آپ  کو 900 روپے ملیں گے  اور باقی  100 روپے  میرے ہوں گے ۔

3۔مہینے  دو  مہینے  کے بعد خود سیل  کرنے وا؛ی کمپنی  /دکاندار  سے وہ مطالبہ کرتا ہے  کہ مجھھے موبائل  دلاؤ! پانچ ہزار  روپے دو یا کوئی بڑا بل  ہو تو کہتا ہے  کہ بڑا بل  ہے اس لیے  آپ مجھے  اپنی طرف  سے پانچ ہزار روپے دو !

یہ چیزیں مارکیٹ  میں بہت ڈھٹائی  سے  اور کھلے عام   ہورہی ہیں  ۔اور دکاندار وں  اور سیل  کرنے  والوں کی یہ مجبوری   ہوتی  ہے کہ ان کو اگر   اس طرح  کمیشن   بنا کر نہ دیں  تو وہ ہمارا مال   ہی نہیں خریدتا،بلکہ وہاں سے سامان   دلواتا ہے جہاں سے اس کو کمیشن ملے ۔ اگر ہم  اس کی  شکایت  مالکان  کو کردیں  تو مالکان ہماری بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے ۔ہمیں   غیر سمجھتے  ہیں وہ اپنے ملازمین  کی بات  کو ہی لیتے  ہیں اور انہیں  کو سچا  مانتے ہیں ۔مارکیٹ  میں ستر، اسی فیصد آج  کل یہی ہورہا ہے ،

1۔سوال یہ ہے کہ  شریعت کی رو سے  یہ طریقے جائز ہیں ؟

2۔مجبوری کی وجہ سے کیا ہم  ایسے رشوت خور ملازمین کو  مال بیچ سکتے ہیں ؟

3۔ان کا کوئی  متبادل   حل  ہو تو ضرور  بتائیے گا۔

جواب : مذکورہ صورت  میں جب خریدار  کا ایجنٹ  ،خریدار  کا تنخواہ دار ملازم   ہے تو اس کا سیل  کرنے والے  سے  کسی بھی قسم  کا کمیشن  وصول  کرنا سراسر  خیانت  اور رشوت ہے ۔

  حضرت ابن عطیہ  رحمہ اللہ نے رشوت کی تعریف یوں کی ہے  : اخذ الاموال  علی  فعل  مایجب  لاخذ فعلہ ،او فعل  ما یجب  علیہ ترکہ ۔ ” ( تفسیر  بحر  محیط  :4/533)

علامہ ابن نجیم   مصری  حنفی ؒ  فرماتے ہیں  :

“وبذل  المال  فیما  ھو مستحق علیہ  حد الرشوۃ  ” (البحر الرائق 3/162)

2۔سوال میں مذکور کمیشن   کی تینوں صورتیں  اس شرط  کے ساتھ سائل   کے لیے جائز ہیں کہ   کمیشن  کی وجہ سے  چیز کی قیمت  میں اضافہ  نہ کیاجائے ۔ مذکورہ  صورت حال  کے مطابق یہ کمیشن ،سائل  کے لیے رشوت نہ ہوگا  تاہم  لینے والے  کے لے اس کا   لینا رشوت  اور حرام  ہوگامزید  وضاحت  کے لیے ہر صورت  کا حکم  بالترتیب  لکھا جاتا ہے :

(الف)اس صورت میں  سائل کے لیے یہ جائز ہے  کہ چیز ہزار  میں بیچے  اورا ضافی  سوروپے  بطور کمیشن  اپنی طرف سے   دے۔ اضافی  سو روپے  کو بل  میں شامل  کرنا جائز نہیں ہے ۔

(ب) اگر کمیشن  کی وجہ سے  چیز کی قیمت  میں اضافہ نہ کیاجائے  تو یہ صورت  بھی جائز ہے  ۔

(ج) یہ صورت  اختیار  کرنا  بھی دفع  ضرر  کے لیے   جائز ہے  ۔تاہم   اس صورت  میں بھی یہی شرط  ہے کہ بل  میں اس کی وجہ  سے اضافہ  نہ کیاجائے

اپنا تبصرہ بھیجیں