ایک صاحب نے سکول وکالج کے طلباء کو پڑھانے کے لئے اردو زبان میں اصول حدیث اور جرح تعدیل کی کتب کے بارے میں پوچھا تو جو جواب لکھا تھا اس امید پر نقل کرتا ہوں کہ ممکن ہے کسی اور کو بھی نفع ہو ۔
سکول ،کالج ویونیورسٹی کے طلباء اگر ان کا موضوع یہی مضامین نہ ہوں تو ان کو اصول حدیث وجرح وتعدیل کی مباحث بالتفصیل پڑھانے کی ضرورت نہیں ،بلکہ کوئی مختصر رسالہ اصول حدیث سے متعلق پڑھا دینا کافی ہوگا مثلا خیر الاصول جو تصحیحات و نقشہ جات کے ساتھ چھپ رہا ہے یا مولانا انور بدخشانی صاحب نے ایک کتاب فارسی زبان میں لکھی تھی اس کا اردو ترجمہ ہمارے عزیز دوست مولانا عمران ولی درویش صاحب استاد جامعہ بنوری ٹاؤن نے کیا ہے ،اس میں سؤال وجواب کے انداز میں بہت آسان انداز میں اصول حدیث کی تفہیم ہے ،اسی طرح کا سلسلہ ہمارے اس گروپ کے بانی مبانی حضرت مولانا ابوالحاج مظفری صاحب نے بھی شروع کیا تھا وہ مکمل ہوا یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں ۔
اگر اس سے کچھ زیادہ تفصیل مقصود ہو تو شیخ عبدالحق محدث دہلوی رح کا مقدمہ جو مبادیات حدیث کے نام سے ترجمہ وافادات چھپے ہیں وہ مفید ہے ۔
اصول حدیث کے علاوہ ایک بنیادی مرحلہ ان حضرات کی نظریاتی اور عملی تربیت کا ہے ۔
تو نظریاتی تربیت کے لئے تدوین حدیث اور حجیت حدیث وغیرہ مضامین پڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
اس میں پڑھانے والا اردو کتب میں سے مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب کی تدوین حدیث یا مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب کی امام ابن ماجہ اور علم حدیث میں جو تدوین حدیث کا باب ہے وغیرہ کتب سے تدوین حدیث اور مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا ادریس کاندھلوی صاحب کی حجیت حدیث پر لکھی کتابوں سے اختصار کرکے یہ مضمون پڑھائے ۔
اور اس پڑھانے سے ان اشکالات کا ازالہ چونکہ مقصود ہے جو جدید طبقے کو پیش آتے رہتے ہیں اس لئے یہاں ان سؤالات کے جوابات کو بھی شامل کرلے مثلا صحیح احادیث صرف بخاری ومسلم میں منحصر نہیں ہیں،اور احادیث صحیحہ کی موجودگی کے باوجود تقلید کی ضرورت کیوں ہے ؟ نیز تدوین حدیث کے ضمن میں امت کے ہاں اسناد کی حیثیت واہمیت اور علماء امت نے حدیث کے قبول کرنے میں جو احتیاط کی ہے اور مجاھدے برداشت کئے ہیں ان کے واقعات کو ضرور شامل کرنا چاہئیے ۔
اس میں اردو زبان میں آثار الحدیث، محدثین کے علمی کارنامے ،اصول حدیث کے اصول ومبادی وغیرہ کتب سے اچھی مدد مل جاتی ہے ۔
پھر متن حدیث کے ذریعے عملی تربیت اور اخلاق وکردار پر محنت کا موقع آئے تو اس کی کوشش سکول کے زمانے سے ہی شروع ہونی چاہئیے اور مختصر مختصر احادیث جن کا عملی زندگی سے تعلق ہے وہ زبانی یاد کروانی چاہئییں مثلا مفتی شفیع عثمانی صاحب کی جوامع الکلم ہے یا علامہ نووی رح کی اربعین ہے ۔
عرب حضرات کے ہاں اس کا اہتمام ملتا ہے مثلا ایک چھوٹا سا باتصویر رسالہ جس میں چہرہ مٹا ہوا ہوتا ہے الطفل اللبیب لاحادیث الحبیب کے نام سے ہے یا شیخ عوامہ مدظلہ نے من صحاح احادیث القصار کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے۔ہمارے محترم مولانا عبدالرحمن کوثر صاحب نے الارشادات النبویہ کے نام سے بھی ایسی کوشش کی ہے جو غالبا ابھی مطبوع نہیں۔
پھر جب بچہ اس مرحلہ سے گذر کر قدرے تفصیل کے مرحلہ کو پہنچتا ہے تو اس لیول میں حفظ کے لئے جواھر البحار من احادیث القصار ہے جو دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے ہر حدیث کے ساتھ اس کی مختصر شرح بھی ہے یا فؤاد عبدالباقی صاحب کی مختصر اللولؤ والمرجان فیما اتفق علیہ الشیخان ہے
۔اسی طرح ان کے ہاں بلوغ المرام ،ادب المفرد ،عمدۃ الاحکام کتب پڑھانے کا رواج ہے ۔
ان سب کتب کے تراجم یہاں بھی دستیاب ہیں ۔
پھر شمائل ترمذی ہے جو شیخ الحدیث صاحب کے حاشیہ کے ساتھ چھپی ہے ،ریاض الصالحین ومنتخب احادیث ہیں۔
پھر اس باب میں ان کتابوں سے اعتناء کرنا چایئیے جو خاص اسی طبقہ کو ملحوظ رکھ کر لکھی گئی ہیں مثلا مولانا منظور احمد نعمانی صاحب کی کتاب معارف الحدیث ہے یا مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب کی کتاب ترجمان السنۃ ہے ،اسی طرح مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ کی کتاب فھم حدیث ہے جو تین لیولز پر مشتمل ہےاور انہی عصری تعلیم یافتہ حضرات کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے لکھی گئی ہے ۔
مجھے جو جو کچھ یاد آیا وہ بلاترتیب لکھ دیا ،جو پڑھانے والا استاد ہے وہ اپنے ماحول ،وقت ،مخاطب کی عمر، صلاحیت کے مطابق ان میں سے انتخاب کرکے ایک نصاب مرتب کرلے تو ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگا ۔
اور ممکن ہو تو مجھے مطلع بھی فرمائیں کہ یہ نصاب مرتب کیا گیا اور تجربہ سے اس کے یہ فوائد سامنے آئے واللہ الموفق وھو المعین ۔
عبداللہ اسلم غفرلہ من لاہور