“شعبان المعظم” “عظمتوں والی رات”
“حم°والکتاب المبین°انا انزلناہ فی لیلہ مبارکہ انا کنا منذرین°
“قسم ہے اس واضح کتاب کی٫ہم نے اسکو( لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر)ایک برکت والی رات میں اتارا ہے-ہم (اپنے ارادے میں اپنے بندوں کو ) آگاہ کرنے والے تھے-” (معارف القرآن)
ان آیات میں”لیلہ المبارکہ” سے مراد”حضرت عکرمہ رضی اللّٰہ عنہ” اور “مفسرین” کی ایک جماعت کے نزدیک “شعبان المعظم”کی پندرہویں رات ہے-مذکورہ آیات سے”ماہ شعبان”کی پندرہویں شب کی بڑی”فضیلت”ثابت ہوتی ہے-
“حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ”ارشاد فرماتے ہیں کہ”اکثر مفسرین کے نزدیک”لیلہ المبارکہ” سے مراد “شب قدر” ہے “شب برءات” نہیں-کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالٰی ہے”انا انزلناہ فی لیلہ القدر”کہ ہم نے’ قرآن کریم” لیلہ القدر میں نازل کیا ہے”
“لیکن ایک قول بعض”مفسرین”کا یہ بھی ہے کہ”لیلہ المبارکہ”سے مراد “شب برءات”ہے-ہو سکتا ہے کہ”نزول دفعی” دو مرتبہ ہوا ہو٫اس طرح کہ ایک رات میں حکم نازل ہوا اور دوسری رات میں اس کا وقوع ہوا ہو- یعنی”شب برءات میں حکم ہوا کہ اس دفعہ “رمضان المبارک”میں جو “لیلہ القدر”آئے گی اس میں “قرآن مجید”نازل کیا جائے گا-اس طرح” لیلہ القدر” میں اس کا وقوع ہو گیا-اس طرح”انا انزلناہ فی لیلہ القدر” سے مراد”حقیقی نزول ہو کہ ” لیلہ القدر” میں ہوا”اور”انا انزلناہ فی لیلہ المبارکہ”سے مراد”حکمی نزول” ہو کہ “شب برءات” میں ہوا-تو احتمال اسکا بھی ہے کہ”لیلہ المبارکہ”سے (شب برءات) مراد ہو-(در منشور)
( خطاب حکیم الامت٫بمقام تھانہ بھون٫1336ھ شعبان٫خطبات حکیم الامت7/365)
“اسمائے شب برءات”
مختلف روایات میں اس رات کے کئ نام ذکر کئے گئے ہیں-
1-لیلہ المبارکہ=برکتوں والی رات٫
2- لیلہ الرحمہ=اللّٰہ تعالٰی کی خاص رحمت کے نزول کی رات٫
3-لیلہ الصک=دستاویز والی رات٫
4-لیلہ البرءات=دوزخ سے بری ہونے کی رات٫
چونکہ اس رات میں “رحمت الٰہی” کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شبِ برءات کہتے ہیں-( فضیلت کی راتیں٫35)
“شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ” نے ابو سعید بن منصور کے حوالے سے “حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ” سے نقل کیا ہے کہ “شب قدر” کے بعد “شعبان کی پندرہویں شب”سے زیادہ افضل کوئ رات نہیں-(ما ثبت باالسنہ فی ایام السنہ عربی اردو)
“نظر رحمت”سوائے چند کے”
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا کہ”شعبان کی پندرہویں رات “کو”جبرائیل علیہ السلام”میرے پاس آئے اور کہا”اے محمد! صلی اللّٰہ علیہ وسلم” یہ ایسی رات ہے جس میں رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں- لہذا اٹھئے اور نماز پڑھئے اور اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائیے”٫میں نے کہا “جبرائیل! یہ کیسی رات ہے؟”کہا”یہ ایسی رات ہے کہ جس میں رحمت کے 300دروازے کھولے جاتے ہیں٫اور اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو بخش دیتے ہیں جو “اللّٰہ”کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراتے ہوں٫جادوگر یا کاہن نہ ہوں٫کینہ رکھنے والے نہ ہوں٫ ہمیشہ شراب پینے والے زنا پر اصرار کرنے والے٫سود کھانے والے٫والدین کے نافرمانوں٫چغل خور٫صلح رحمی” کرنے والوں کے لئے بھی اس رات معافی نہیں ہوگی جب تک کہ وہ ان تمام چیزوں سے توبہ نہ کر لیں اور ان برے کاموں کو چھوڑ نہ دیں-( درہ الناصحین اردو)
“عرب کے قبائل میں ںسب سے زیادہ “بنو کلب” کی بکریاں تھیں٫ان تمام بکریوں کے جسموں پر جتنی تعداد میں بال تھے ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں “اللّٰہ تعالٰی” لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں-( واللہ اعلم)
عظمتوں والی رات”
“حم°والکتاب المبین°انا انزلناہ فی لیلہ مبارکہ انا کنا منذرین°
“قسم ہے اس واضح کتاب کی٫ہم نے اسکو( لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر)ایک برکت والی رات میں اتارا ہے-ہم (اپنے ارادے میں اپنے بندوں کو ) آگاہ کرنے والے تھے-” (معارف القرآن)
ان آیات میں”لیلہ المبارکہ” سے مراد”حضرت عکرمہ رضی اللّٰہ عنہ” اور “مفسرین” کی ایک جماعت کے نزدیک “شعبان المعظم”کی پندرہویں رات ہے-مذکورہ آیات سے”ماہ شعبان”کی پندرہویں شب کی بڑی”فضیلت”ثابت ہوتی ہے-
“حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ”ارشاد فرماتے ہیں کہ”اکثر مفسرین کے نزدیک”لیلہ المبارکہ” سے مراد “شب قدر” ہے “شب برءات” نہیں-کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالٰی ہے”انا انزلناہ فی لیلہ القدر”کہ ہم نے’ قرآن کریم” لیلہ القدر میں نازل کیا ہے”
“لیکن ایک قول بعض”مفسرین”کا یہ بھی ہے کہ”لیلہ المبارکہ”سے مراد “شب برءات”ہے-ہو سکتا ہے کہ”نزول دفعی” دو مرتبہ ہوا ہو٫اس طرح کہ ایک رات میں حکم نازل ہوا اور دوسری رات میں اس کا وقوع ہوا ہو- یعنی”شب برءات میں حکم ہوا کہ اس دفعہ “رمضان المبارک”میں جو “لیلہ القدر”آئے گی اس میں “قرآن مجید”نازل کیا جائے گا-اس طرح” لیلہ القدر” میں اس کا وقوع ہو گیا-اس طرح”انا انزلناہ فی لیلہ القدر” سے مراد”حقیقی نزول ہو کہ ” لیلہ القدر” میں ہوا”اور”انا انزلناہ فی لیلہ المبارکہ”سے مراد”حکمی نزول” ہو کہ “شب برءات” میں ہوا-تو احتمال اسکا بھی ہے کہ”لیلہ المبارکہ”سے (شب برءات) مراد ہو-(در منشور)
( خطاب حکیم الامت٫بمقام تھانہ بھون٫1336ھ شعبان٫خطبات حکیم الامت7/365)
“اسمائے شب برءات”
مختلف روایات میں اس رات کے کئ نام ذکر کئے گئے ہیں-
1-لیلہ المبارکہ=برکتوں والی رات٫
2- لیلہ الرحمہ=اللّٰہ تعالٰی کی خاص رحمت کے نزول کی رات٫
3-لیلہ الصک=دستاویز والی رات٫
4-لیلہ البرءات=دوزخ سے بری ہونے کی رات٫
چونکہ اس رات میں “رحمت الٰہی” کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شبِ برءات کہتے ہیں-( فضیلت کی راتیں٫35)
“شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ” نے ابو سعید بن منصور کے حوالے سے “حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ” سے نقل کیا ہے کہ “شب قدر” کے بعد “شعبان کی پندرہویں شب”سے زیادہ افضل کوئ رات نہیں-(ما ثبت باالسنہ فی ایام السنہ عربی اردو)
“نظر رحمت”سوائے چند کے”
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا کہ”شعبان کی پندرہویں رات “کو”جبرائیل علیہ السلام”میرے پاس آئے اور کہا”اے محمد! صلی اللّٰہ علیہ وسلم” یہ ایسی رات ہے جس میں رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں- لہذا اٹھئے اور نماز پڑھئے اور اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائیے”٫میں نے کہا “جبرائیل! یہ کیسی رات ہے؟”کہا”یہ ایسی رات ہے کہ جس میں رحمت کے 300دروازے کھولے جاتے ہیں٫اور اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو بخش دیتے ہیں جو “اللّٰہ”کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراتے ہوں٫جادوگر یا کاہن نہ ہوں٫کینہ رکھنے والے نہ ہوں٫ ہمیشہ شراب پینے والے زنا پر اصرار کرنے والے٫سود کھانے والے٫والدین کے نافرمانوں٫چغل خور٫صلح رحمی” کرنے والوں کے لئے بھی اس رات معافی نہیں ہوگی جب تک کہ وہ ان تمام چیزوں سے توبہ نہ کر لیں اور ان برے کاموں کو چھوڑ نہ دیں-( درہ الناصحین اردو)
“عرب کے قبائل میں ںسب سے زیادہ “بنو کلب” کی بکریاں تھیں٫ان تمام بکریوں کے جسموں پر جتنی تعداد میں بال تھے ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں “اللّٰہ تعالٰی” لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں-( واللہ اعلم)
“فیصلے کی رات’
“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”فرماتی ہیں کہ”سرکارِ دوعالم”حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے مجھ سے فرمایا”کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں”یعنی شعبان کی پندرہویں رات” میں کیا ہوتا ہے؟میں نے عرض کیا”یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” مجھے تو معلوم نہیں” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہی بتا دیجئے کہ کیا ہوتا ہے؟
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا کہ”بنی آدم” میں سے ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے٫اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے-٫اس رات میں بندوں کے اعمال اٹھا لئے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں-(رواہ البیہقی)
“حضرت علاء بن حارث رحمۃ اللّٰہ” سے روایت ہے کہ”امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” رات کو اٹھے اور نماز پڑھنے لگے٫اور اتنے لمبے سجدے کئے کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم( خدانخواستہ) وفات پا گئے-میں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو میں اٹھی اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے پاؤں کے انگوٹھے کو حرکت دی٫اس میں حرکت ہوئ تو میں واپس لوٹ آئی-
جب “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:اے عائشہ”کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ “اللّٰہ کا نبی”تمہاری حق تلفی کرےگا؟میں نے عرض کیا”یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بخدا ایسی بات نہیں ہے- در حقیقت مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی وفات ہوگئی ہے کیونکہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے سجدے بہت لمبے کئے تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا جانتی بھی ہو کہ یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ”اللّٰہ اور اسکے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ہی زیادہ جانتے ہیں٫فرمایا”یہ شعبان کی پندرہویں رات” ہے٫اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بندوں پر نظرِ رحمت فرماتے ہیں٫بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں٫طالبین رحم پر رحم فرماتے ہیں اور کینہ وروں کو انکے حال پر چھوڑ دیتے ہیں-(رواہ البیہقی)
“قبرستان جانا”
“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا”سے مروی ہے کہ”ایک رات “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میرے پاس تشریف لائے٫پھر تھوڑی دیر بعد کپڑے پہن کر چلے-میں سمجھی کہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ازواجِ مطہرات”میں سے کسی کے پاس جارہے ہیں٫اسلئے مجھے غیرت آئ اور میں “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے پیچھے پیچھے نکل کھڑی ہوئ٫ تلاش کرتے ہوئے میں نے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو “جنت البقیع” میں پایا- میں نے دل میں کہا “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اللّٰہ” کے کام میں مشغول ہیں اور میں دنیا کے کام میں-میں واپس اپنے حجرے میں چلی ائ-اس آنے جانے میں میرا سانس پھول گیا٫اتنے میں “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا کہ”یہ سانس کیوں پھول رہا ہے٫ میں نے سب صورتحال کہ سنائ٫”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا: عائشہ! کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ “اللّٰہ اور اس کا رسول” تمہارا حق ماریں گے؟ ” (اصل بات یہ ہے کہ) جبرائیل علیہ السلام”میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا”کہ یہ رات “شعبان کی پندرہویں رات”ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے جو کہ “قبیلہء بنو کلب” کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں-پھر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے”امی عائشہ رضی اللّٰہ سے فرمایا” اے عائشہ”کیا تم مجھ کو اجازت دیتی ہو کہ میں آج رات قیام کروں”- میں نے کہا بے شک “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر میرے ماں باپ قربان ہوں ٫”قیام کے بعد “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ایک طویل سجدہ کیا اسوقت مجھ کو خیال ہوا کہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئ- میں نے چھونے کا ارادہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوؤں پر اپنا ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئ-میں نے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو سجدہ میں یہ دعا مانگتے سنا:”اعوذ بعفوک من عقابک٫واعوذ برضاک من سخطک٫واعوذبک منک جل وجھک٫لا احصی ثناءا علیک انت کما اثنیت علی نفسک° “
صبح کو میں نے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اسکا ذکر کیا تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا:”کہ اے عائشہ! تم اس دعا کو یاد کروگی؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور” یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”سیکھ لو( یاد کرلو)٫مجھ کو یہ کلمات” جبرائیل علیہ السلام”نے سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ سچدہ میں ان کو بار بار پڑھا کرو-
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ”حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اپنی زندگی میں ایک مرتبہ “شبِ برءات” میں قبرستان تشریف لے گئے تھے٫لہذا اگر وقت ملے تو اس دن قبرستان جائیں مگر اسکو ضروری نہ سمجھا جائے-
“حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللّٰہ”نے “13 شعبان 1331ھ”کو جامع مسجد “تھانہ بھون”میں اپنے بیان کے آخر میں فرمایا:”اس رات میں جاگنا ٫اور اپنی حاجات طلب کرنا٫ مردوں کے لئے دعا کرنا٫ کچھ پڑھ کر بخشنا” مستحب “ہے- لیکن بہتر یہ ہے کہ مردوں کو اسی طریق پر نفع پہنچاؤ٫جس طور” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”سے منقول ہے یعنی “بعد نماز عشاء” کے “قبرستان”میں جا کر مردوں کے لئے دعا کرو٫پڑھکر بخشو٫مگر” فرداً فرداً” جاؤ جمع ہو کر مت جاؤ” اور دن میں روزہ ہے
اور عجب لطف”حق ہے کہ “پندرہویں شب”میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے٫اس لئے(اکیلے) جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی-( خطبات حکیم الامت 7/427٫)
“استاذی”شیخ الاسلام”حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ” فرماتے ہیں”کہ صرف ایک روایت سے ثابت ہے کہ”شبِ برءات” میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جنت البقیع تشریف لے گئے تھے٫لیکن( مسلمانانِ پاکستان)ہم مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ ہر “شبِ برءات” میں قبرستان” جائیں-(وہاں ہوتا کیا ہے الامان الحفیظ٫ میلہ لگتا ہے٫کھانے پینے کے اسٹال لگے ہوتے ہیں
(گویا”عبرت”کے لئے نہیں بلکہ “پکنک” منانے جاتے ہیں-راقم)لیکن میرے والد ماجد”حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللّٰہ علیہ” ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے- :” ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے” فرماتے تھے”کہ جو چیز “رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجے میں رکھنا چاہیے٫اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے-لہذا ساری ‘حیات طیبہ” میں ” حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے “پندرہویں شعبان” کو ایک مرتبہ “جنت البقیع” جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ “اتباع سنت”میں چلے جاؤ تو ٹھیک ہے- لیکن ہر “شبِ برءات”میں جانے کا اہتمام کرنا٫ التزام کرنا اور اسکو شب برءات کے ارکان میں داخل کرنا٫اس کو اس رات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شبِ برءات ہی نہیں ہوئ٫یہ اس کو اس کے درجے سے بڑھانے والی بات ہے-لہذا اگر کوئ شخص اس نقطہ( نظریہ) سے قبرستان چلا گیا کہ ” نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تشریف لے گئے تھے٫میں بھی “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی اتباع میں جا رہا ہوں تو “ان شاءاللہ”اجرو ثواب ملے گا-(اصلاحی خطبات٫4)
“شب بیداری”
“حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ”فرماتے ہیں کہ”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”جب شعبان کی پندرہویں شب”آئے تو رات کو (عبادت) نماز پڑھو اور اگلے دن روزہ رکھو٫- “شبِ برءات کی”عظمتوں” اور “فضیلتوں “کا کیا ٹھکانہ؟ یہی وہ مقدس رات ہے جس میں “پروردگار عالم” ” غروب شمس” سے لیکر” صبحِ صادق”کے طلوع ہونے تک” آسمان دنیا” پر نزول فرماتے ہیں٫دنیا والوں کو اپنی “رحمت٫بخشش اور عطاء” کے خزانے لٹاتے ہیں اور یوں پکارتے ہیں٫ “ہے کوئ بخشش مانگنے والا٫کہ میں اسکی بخشش کروں”٫ ہے کوئ مبتلاء مصیبت٫کہ میں اس کی مصیبت دور کروں”٫اسی طرح “صبحِ صادق”تک یہ پکار پڑتی رہتی ہے- اور جو بندے ان” محبتوں بھری” پکار کو سن کر “اپنے مولیٰ کی بارگاہ”میں اپنی ضرورتوں ٫حاجتوں ٫بخششوں اور مغفرت کی درخواست پیش کرتے ہیں “اللّٰہ تعالٰی” ان کی درخواستوں کو اپنی “رحمت کاملہ” کے صدقے میں قبول فرماتے ہیں-(ابن ماجہ٫مشکوہ)
“شبِ برءات” میں کوئ “خاص نماز” کسی بھی “صحیح حدیث”سے ثابت نہیں ہے-اس شب میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنا “مستحب”ہے- ہر بندے کو اختیار ہے کہ”چاہے نفل نماز پڑھے یا اپنی “قضاء نمازیں “جتنی ممکن ہو “ادا کر لیں-
“حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللّٰہ” تحریر کرتے ہیں کہ”اس شب میں بیدار رہ کر عبادت کرنا افضل ہے- خواہ” خلوت” میں یا “جلوت” میں٫لیکن” اجتماع” کا اہتمام نہ کیا جائے- (زوال السنہ عنہ اعمال السنہ)
“مفتیء اعظم پاکستان٫مفتی محمد شفیع رحمۃ اللّٰہ” لکھتے ہیں:”ان احادیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”سے جس طرح اس “مبارک رات کے بیش بہا “فضائل و برکات” معلوم ہوئے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے اس رات میں “اعمالِ ذیل” مسنون ہیں1- رات کو جاگ کر” نمازیں پڑھنا اور ذکر و تلاوت” میں مشغول رہنا-
2- “اللّٰہ تعالٰی” سے مغفرت اورعاقبت اور اپنے مقاصدِ دارین کی دعا مانگنا- (فضائل و احکام شبِ برءات ص8)
“حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ”شبِ برءات” کے متعلق اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:”اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں”
1-جہاں تک ممکن ہو سکے”عبادت کرو” اور “قرآن کریم” کی تلاوت کرو٫نماز پڑھنا سب سے افضل ہے لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے-غرض یہ کہ “اللّٰہ تعالٰی” کی یاد میں جتنا بھی وقت گزار سکتے ہو گزارو٫ باقی سونے کا تقاضا ہو تو سو جاؤ تاکہ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو-
دوسرے یہ رات” اللّٰہ تعالیٰ” سے مانگنے کی ہے-اللّٰہ تعالٰی سے کیا مانگا جائے؟؟
اس کی طرف “اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم”نے اشارہ فرمایا ہے٫ ایک تو بخشش مانگو٫دوسرے رزق حلال مانگو٫اور تیسرے”اللّٰہ تعالٰی”سے عافیت” مانگو- لیجئے “اللہ تعالیٰ” نے “کنجیاں” تمہہارے ہاتھ میں دےدی ہیں٫جتنا چاہے کھولو اور لو(اصلاحی مواعظ- 5)
“مسجد میں اجتماع”
“فضیلت والی راتوں” میں شب بیداری”چونکہ ایک “مستحب عمل” ہے اس لئے بہتر ہے کہ یہ عمل تنہا کیا جائے اس کے لئے مسجدوں میں ہرگز اجتماع نہ کیا جائے-فقہاء کرام نے “فضیلت کی راتوں”میں “شب بیداری” کے لئے مسجدوں میں اجتماع کو” مکروہ” لکھا ہے-چنانچہ “علامہ ابن نجیم مصری حنفی ( متوفی970ھ)تحریر فرماتے ہیں”فضیلت کی راتوں” میں “شب بیداری” کے لئے مساجد میں اجتماع مکروہ ہے،-
(البحر الرائق 2/52)
“بدعات و رسومات”
اس با برکت رات کے”فضائل و برکات”پڑھنے کے بعد اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیںتو”حیرت اور افسوس کے ملے جلے تاثرات ابھرتےہیں کہ کس طرح ہمارے “غلط افعال و اعمال نے اس”مبارک شب” کے” ثواب کو عذاب”سے اور” برکات کو”دینی اور دنیاوی”نقصان سے بدل کر رکھ دیا ہے-ہم نے باعثِ برکت رات کو”ہادیء برحق”امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم” کا اسوہ “چھوڑ کر قسم قسم کی” رسومات اور بدعات “ایجاد کر لی ہیں٫جن کو فرائض کی طرح لازمی سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے-
ایسی ہی بدعات اور رسومات میں”1مسجدوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے “چراغاں کرنا” ٫مکانوں کی چھتوں” دیواروں” پر قطار در قطار دئے جلانا”یہ سب بیجا اسراف اور فضول خرچی ہے جو بربادی کا ذریعہ ہے”
“ارشاد باری تعالیٰ ہے”ان المبزرین کانو اخوان الشیاطین”
“بےشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں”
3- آتش بازی”یہ رسم بھی “ہندوانہ شعار” ہے- آج بھی مسلمان لاکھوں روپے اس “خلاف عقل و شرع” کام میں پھونکتے ہیں- بچوں کو پھلجھڑی٫ پٹاخے چھوڑنے کےلئے پیسے دےدئے جاتے ہیں اور ان کو “اللّٰہ تعالٰی” کے احکام کی خلاف ورزی سکھائ جاتی ہے- اس آتش بازی سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے- بچے جل جاتے ہیں” دکانوں اور مکانوں تک میں آگ لگ جاتی ہے-اور یہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے- جسکی حرمت” قرآن مجید” میں موجود ہے”
“ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ”(مت ڈالو اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں کو ہلاکت میں) البقرہ”)
“4-شب برءات میں حلوے مانڈے پکانے اور باٹنے کا بھی بڑا اہتمام ہوتا ہے- بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بغیر “شبِ برءات”ہی نہی ہو تی- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” بیچاری عورتیں اس رات میں بجائے عبادت کے پورا دن ان حلوے وغیرہ کے چکر میں پڑی رہتی ہیں- جو محلے اور برادری میں بانٹے جاتے ہیں” اچھے اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں- اور باقاعدہ طور پر بیٹی کے سسرال میں قسم قسم کے حلوے اور کھانے سجا کر بھیجتی ہیں- اور اگر کوئ یہ سب نہ کرے تو اسے برا سمجھتی ہیں- وہابی کہ کے پکارتی ہیں-ایک غیر ضروری چیز کو فرض و واجب کا درجہ دینا گناہ اور بدعت ہے-
آخر میں” اللہ تعالیٰ” سے دعا ہے کہ “رحمتوں٫برکتوں اور فضیلتوں والی اس رات سے ہم سب کو کما حقہ فایدہ اٹھانے کی اپنے فضل و کرم سےتوفیق دے آمین
کہنے ٫سننے٫لکھنے سے زیادہ عمل کرنے والا بنائے آمین(ختم شد)
حوالہ: تاریخ کے ساتھ ساتھ ( ص 189 تا209)
طالبِ دعا:خولہ بنت سلیمان