شہید کے احکام

شہید کے احکام

اگر چہ شہید بھی بظاہر میت ہے مگر عام مُردوں کے احکام اور شہید کے احکام میں فرق ہے، شہید کی بہت ساری اقسام احادیث میں وارد ہوئی ہیں، ہم یہاں شہید کے جو احکام بیان کرنا چاہتے ہیں، وہ اس شہید کے ساتھ خاص ہیں جس میں درجِ ذیل چند شرائط پائی جائیں:

1-مسلمان ہونا، پس غیر مسلم کے لیے کسی قسم کی شہادت ثابت نہیں ہوسکتی۔

2-مکلف یعنی عاقل بالغ ہونا،لہٰذا جو شخص پاگل پن یانابالغ ہونے کی حالت میں مارا جائے تو اس کے لیے شہادت کے وہ احکام جن کا ذکر ہم آگے کریں گے، ثابت نہیں ہوں گے۔

3-حدثِ ِاکبر سے پاک ہونا، اگر کوئی شخص حالت جنابت میں یا کوئی عورت حیض ونفاس میں شہید ہوجائے تو اس کے لیے بھی شہید کے دنیوی احکام ثابت نہ ہوں گے۔

4-بے گناہ قتل ہونا، پس اگر کوئی شخص بے گناہ قتل نہیں ہوا بلکہ کسی جرمِ کی شرعی سزا میں مارا گیا یا قتل ہی نہیں ہوا بلکہ یونہی مرگیا تو اس کے لیے بھی شہید کے احکام ثابت نہیں ہوں گے۔

5-اگر کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو تو یہ بھی شرط ہے کہ کسی آلہ جارحہ (دھار ی دار آلہ) سے مارا گیا ہو، اگر کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے دھاری دار آلہ کے علاوہ کسی اور چیز سے مارا گیا ہو، مثلاً: کسی پتھر وغیرہ سے مارا جائے تو اس پر شہید کے احکام جاری نہیں ہوں گے، لیکن لوہا مطلقاً آلہ جارحہ کے حکم میں ہے اگر چہ اس میں دھار نہ ہو اور اگر کوئی شخص حربی کافروں یا باغیوں یا ڈاکہ زنوں کے ہاتھ سے مارا گیا ہو یا ان کے معرکۂ جنگ میں مقتول ملے تو اس میں آلہ جارحہ سے مقتول ہونے کی شرط نہیں، حتیٰ کہ اگر کسی پتھر وغیرہ سے بھی وہ لوگ ماریں تو بھی شہید کے احکام اس پر جاری ہوجائیں گے، یہ بھی شرط نہیں کہ انہوں نے خود قتل کیا ہوبلکہ اگر وہ قتل کے سبب بھی بنے ہوں یعنی ان سے ایسے امور ہوئے ہوں جو باعث ِقتل بن سکتے ہوں تب بھی اس پرشہید کے احکام جاری ہوجائیں گے۔ مثلاکسی کافر وغیرہ نے اپنے جانور سے کسی مسلمان کو روند ڈالا اور خود بھی اس پر سوار تھا۔ یا کوئی مسلمان کسی جانور پر سوار تھا، اس جانور کو کسی کافر وغیرہ نے بھگایا جس کی وجہ سے مسلمان اس جانور سے گرکر مرگیا۔ یاکسی کافر وغیرہ نے کسی مسلمان کے گھریا جہاز میں آگ لگادی جس سے کوئی جل کر مرگیا۔

6- اس قتل کی سزا میں ابتداء ً شریعت کی طرف سے کوئی مالی عوض مقرر نہ ہو بلکہ قصاص واجب ہو، پس اگر مالی عوض مقرر ہوگا تب بھی اس مقتول پر شہید کے احکام جاری نہ ہوں گے اگر چہ ظلماً مارا جائے۔ مثلاکوئی مسلمان کسی مسلمان کو غیر جارح آلہ سے قتل کردے۔ یاکوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھوں آلہ جارحہ سے غلطی سے قتل ہوجائے،جیسے کسی شکاریا کسی نشانے پرتیر پھینک رہا ہو اور وہ کسی انسان کو لگ جائے۔ یاکوئی شخص کسی جگہ بغیر معرکۂ جنگ کے مقتول پایا جائے اوراس کا قاتل معلوم نہ ہو۔

ان سب صورتوں میں چونکہ اس قتل کے عوض مال واجب ہوتا ہے، قصاص واجب نہیں ہوتا، اس لیے اس پر شہید کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

مالی عوض کے مقرر ہونے میں ’’ابتدا‘‘ کی قید اس وجہ سے لگائی گئی کہ اگر ابتدا سے قصاص مقرر ہوا ہو مگر کسی وجہ سے قصاص معاف ہوکر اس کے بدلے مال واجب ہوا ہو تو وہاں شہید کے احکام جاری ہوں گے۔ مثلاکوئی شخص آلہ جارحہ سے قصداً یا ظلماً مارا گیا لیکن قاتل میں اور ورثۂ مقتول میں مال کے عوض صلح ہوگئی ہو تو اس صورت میں چونکہ ابتداً قصاص واجب ہوا تھا اور مال ابتدا میں واجب نہیں ہوا تھا بلکہ صلح کے سبب سے واجب ہوا، اس لیے یہاں شہید کے احکام جاری ہوں گے۔ یاکوئی باپ اپنے بیٹے کو آلہ جارحہ سے مار ڈالے تو اس صورت میں قاعدہ کی رُو سے ابتداء ً قصاص ہی واجب ہوتا ہے، لیکن باپ کے احترام وعظمت کی وجہ سے قصاص معاف ہوکر اس کے بدلہ میں مال واجب ہوجاتاہے، لہٰذا یہاں بھی شہید کے احکام جاری ہوجائیں گے۔

7-زخم لگنے کے بعد کوئی دنیوی فائدہ مثلاً: کھانا پینا، دوا اور خرید وفروخت وغیرہ حاصل نہ کیا ہو، نہ ہی ایک وقت کی نماز کے بقدر اس کی زندگی حالت ِہوش وحواس میں گزری ہو اور نہ لوگ اس کو حالت ِہوش میں معرکہ سے اٹھاکر لائے ہوں،البتہ اگر جانوروں کے روندنے اورپاؤوں کے نیچے آنے کے ڈر سے اٹھاکرلائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پس اگر کوئی شخص زخم کے بعد زیادہ کلام کرے تو وہ بھی شہید کے احکام میں داخل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وصیت کرے تو وہ وصیت اگر کسی دنیاوی معاملہ میں ہو تو شہید کے حکم سے خارج ہوجائے گا اور اگر دینی معاملے میں ہو تو خارج نہیں ہوگا۔ اگر کوئی معرکۂ جنگ میں شہید ہوا اور اس سے یہ مذکورہ کام ہوں تو شہید کے احکام سے خارج ہوجائے گا، ورنہ نہیں، البتہ اگر یہ شخص لڑائی کے دوران شہید ہوا اور ابھی تک لڑائی ختم نہیں ہوئی تو مذکورہ فوائد حاصل کرنے کے باوجود وہ شہید ہے۔

جس شہید میں یہ سب شرائط پائی جائیں اس کا ایک حکم یہ ہے کہ اس کو غسل نہ دیا جائے اور اس کا خون اس کے جسم سے نہ دھویا جائے بلکہ اس کو اسی طرح دفن کردیں۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ جو کپڑے پہنے ہوئے ہو، ان کپڑوں کو اس کے جسم سے نہ اتارا جائے،البتہ اگر اس کے کپڑے عدد مسنون سے کم ہوں تو عدد مسنون کو پورا کرنے کے لیے کپڑے زیادہ کردئیے جائیں، اسی طرح اگر اس کے کپڑے مسنون کفن سے زیادہ ہوں تو زائد کپڑے اتار لیے جائیں اور اگر اس کے جسم پر ایسے کپڑے ہوں جو کفن نہ بن سکتے ہوں جیسے چمڑے کی جیکٹ کوٹ وغیرہ تو ا ن کو بھی اتارلینا چاہیے،البتہ اگر ایسے کپڑوں کے سوا اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تو پھر جیکٹ وغیرہ کو نہیں اتارنا چاہیے۔ ٹوپی، جوتے، ہتھیار وغیرہ ہر حال میں اتار لیے جائیں اور باقی سب احکام نمازِ جنازہ وغیرہ جو دوسرے مردوں کے لیے ہیں وہ سب اس کے حق میں بھی جاری ہوں گے۔ اگر کسی شہید میں ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا اور دوسرے مردوں کی طرح نیا کفن بھی پہنایا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں