شوہر کے حقوق

مفتی انس عبدالرحیم

اسلام نے جس طرح شوہر کے ذمہ، بیوی کے حقوق رکھے ہیں۔ بیوی کے ذمہ بھی شوہر کے حقوق رکھے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بیویوں کے حقوق کا بہت چرچا ہے لیکن شوہروں کے حقوق کا شاید کسی کو خیال نہیں۔ پہلے مردوں کے اپنی بیویوں پر مظالم کے قصے نظر آتے تھے لیکن اب شوہر بھی بیوی کے مظالم کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس لیے  اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ بیوی اور شوہر دونوں کے حقوق کا برابر خیال رکھا جائے اور دونوں آپس میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے یہ حقوق ہیں: 

(١)     ہر جائز بات میں شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا بیوی پر ضروری ہے۔ (گناہ اور ناجائز باتوں میں شوہر کی بلکہ کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں)۔

(٢)     بیوی کو شوہر کی مالی حیثیت اور گھر کے ضروری اخراجات سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔

(٣)     شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت بیوی کو نہیں دینی چاہیے۔

(٤)     بیوی پر یہ ضروری ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔ 

(٥)     شوہر کے مال و دولت کی حفاظت بھی بیوی کی ذمہ داری ہے۔ بیوی کے لیے  شرعاً یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی چیز ہدیہ وغیرہ کرے۔ اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز کسی کو دے تو اس کا ثواب شوہر کو ملے گا، جبکہ بیوی کو گناہ ہوگا۔

(٦)     بیوی کے لیے  شوہر کی اجازت کے بغیر نفل نماز یا نفلی روزہ رکھنا بھی جائز نہیں۔

(٧)     بیوی کو چاہیے کہ اس کا شوہر اگر غریب یا بدصورت ہو تو اس کو حقیر نہ سمجھے۔ نیز اگر عورت زیادہ خوبصورت ہو تو اس پر فخر نہ کرے۔

(٨)     شوہر کو نام لے کر نہیں پکارنا چاہیے۔

(٩)     شوہر کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا بیوی پر شوہر کا حق ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی کسی کے سامنے شکایت کرے نہ شوہر کے علاوہ کسی سے تعلقات استوار کرے۔

(١٠)     شوہر کے سامنے زبان درازی اور تکرار نہیں کرنی چاہیے۔

(١١)     شوہر کے اندر اگر کوئی بات شریعت کے خلاف دیکھے تو بیوی کو چاہیے  کہ بصیرت، مصلحت اور ادب کے ساتھ شوہر کو اس سے روکے۔

(١٢)     شوہر کے رشتہ داروں بالخصوص ساس، سسر سے لڑائی جھگڑا اور تکرار کرنے سے گریز کرے۔ یہ بھی شوہر کے حقوق میں سے ہے۔ اس کا بھی بیوی کو لحاظ کرنا چاہیے۔

(١٣)     بیوی کے ذمہ شوہر کا ایک بڑا حق یہ بھی ہے کہ بیوی شوہر کی ذاتی خدمت اور گھر کے کام کاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔

(١٤)     بیوی پر شوہر کا سب سے بڑا شرعی و اخلاقی حق یہ ہے کہ بیوی شوہر کی خواہش کو کسی شرعی عذر کے بغیر نہ ٹھکرائے۔ بغیر عذر کے شوہر کی ”خواہش” کو ٹھکرانا صحیح احادیث کے مطابق قابل لعنت فعل ہے۔

    جن شرعی اعذار کی بناء پر عورت اپنے شوہر کو شرعاً پاس آنے سے روک سکتی ہے وہ یہ ہیں: حیض، نفاس، ظہار، حج یا عمرہ کا احرام، شوہر کا اعتکاف میں ہونا نیز اگر کثرت عورت کے لےے ناقابل برداشت ہو تو شرعاً شوہر کے لےے بیوی کی طاقت سے زیادہ پاس آنا جائز نہیں۔

(١٥)     شوہر کا بیوی پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ غیر محرم مردوں سے اپنی آواز تک کا پردہ کرے۔ اور بغیر مجبوری کے نہ گھر سے باہر نکلے، نہ غیر محرم سے بات کرے۔ اگر کوئی مجبوری پیش آگئی ہو تو مکمل پردہ کے ساتھ نکلے اور ضرورت سے زیادہ نا محرم سے بات نہ کرے۔ 

(١٦)     شوہر کو حرام کمائی سے روکنا بھی اس کا حق ہے۔ اسلام کے شاندار دور میں عورتیں یہ کہہ کر اپنے شوہروں کو کام کاج کے لیے  روانہ کرتی تھیں: ” حرام کمائی سے بالکل دور رہنا۔ کیونکہ ہم بھوک اور تنگی تو برداشت کرسکتی ہیں جہنم کی آگ برداشت نہیں کر سکتیں۔” 

(١٧)     صاف ستھرا رہنا اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی شوہر کا حق ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ زیب و زینت کے ناجائز طریقے شوہر کے کہنے سے بھی جائز نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں